محمد کمال اسماعیل
ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل 1908-2008 مصر کی تاریخ کے سب سے کم عمر شخص تھے جنھوں نے ہائی اسکول سرٹیفکیٹ حاصل کیا پھر رائل اسکول آف انجینئرنگ کے سب سے کم عمر طالب علم بنے۔ انھوں نے وہاں سے گریجویٹ ڈگری لی پھر سب سے کم عمر طالب علم بنے جن کو یورپ سے اسلامک آرکیٹیکچر میں ڈاکٹریٹ کی تین ڈگریاں لینے کے لیے بھیجا گیا-وہ سب سے کم عمر نوجوان تھے جنہیںبادشاہ سے ،، نائل،، سکارف اور،، آئرن،، محمد کمال اسماعیل ان انجینئرز میں سے ایک تھے جنھوں نے دو مقدس مساجد (مکہ المکرمہ - مدینہ منورہ) کے دوسرے توسیعی منصوبے کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس بڑے آپریشن کی نگرانی کے لیے سعودی فرمانروا شاہ فہد اور بن لادن گروپ کی سفارشات کے بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ اس نے کوئی اجرت نہیں لی، لیکن یہ درست نہیں کہ اس نے اپنے تمام واجبات لے لیے۔ انھوں نے 44 سال کی عمر میں شادی کی اور ان کی بیوی نے بیٹے کو جنم دیا اور زچگی کے بعد فوت ہو گئی اس کے بعد وہ مرتے دم تک عبادت الٰہی میں مصروف رہے۔
بیگ | |
---|---|
محمد کمال اسماعیل | |
(عربی میں: محمد كمال إسماعيل) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 13 ستمبر 1908ء میت غمر |
وفات | 2 اگست 2008ء (100 سال) قاہرہ |
شہریت | مصر |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ قاہرہ |
پیشہ | معمار |
مادری زبان | مصری عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، مصری عربی |
درستی - ترمیم |
محمد کمال اسماعیل نے حرمین شریفین میں سفید پتھر نصب کرایا۔یہ وہ پتھر ہے جو حرم مکی میں مطاف چھت اور باہر صحن میں لگا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ گرمی کو جذب کرکے فرش کی سطح کو ٹھنڈا رکھتا ہے یہ پتھر ایک ملک یونان میں ایک چھوٹے سے پہاڑ میں دستیاب تھا۔ وہ سفر کرکے گریس گئے اور حرم کے لیے کافی مقدار میں تقریباً آدھا پہاڑ خریدنے کا معائدہ کیا۔معائدہ پر دستخط کرکے وہ واپس مکہ لوٹے اور سفید پتھر سٹاک میں آگیا اور مکہ حرم میں پتھر کی تنصیب مکمل کرائی۔ 15 سال بعد سعودی حکومت نے ایسا ہی پتھر مسجد نبوی میں بھی نصب کرنے کو کہا۔
انجینئر محمد کمال کو جب بادشاہ نے مسجد نبوی میں ویسا ہی ماربل لگانے کو کہا تو وہ بہت پریشان ہوئے کیونکہ کرہ ارض پر واحد جگہ یونان ہی تھا جہاں یہ پتھر دستیاب تھا جو آدھا پہاڑ تو وہ پہلے ہی خرید چکے تھے۔ انجینئر محمد کمال بتاتے ہیں کہ وہ یونان میں اسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کے پاس گئے اسے ملے اور ماربل کی بقایا مقدار جو بچ گئی تھی اس کے بارے میں پوچھا تو چیف ایگزیکٹو نے بتایا وہ ماربل تو ہم نے آپ کے جانے کے بعد بیچ دیا تھا اب تو 15 سال ہو گئے ہیں کمال بہت افسردہ ہوا اور میٹنگ جھوڑ کر جانے لگا تو آفس سیکرٹری سے ملا اور گزارش کی کہ مجھے اس شخص کا اتہ پتہ بتاؤ جس نے بقیہ تمام ماربل کی مقدار خریدی تو اس نے کہا پرانا ریکارڈ تلاش کرنا بہت مشکل ہے لیکن آپ مجھے اپنا فون نمبر دے جائیں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہوں اس نے اپنا نمبر اور ہوٹل کا پتہ دیا اور اگلے دن آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔دفتر چھوڑنے سے پہلے کمال نے سوچا کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ کس نے خریدا اللہ خود ہی کوئی بندوبست کر دے گا اگلے دن ایرپورٹ جانے سے چند گھنٹے قبل اسے فون کال آئی کہ مجھے ماربل کے خریدار کا ایڈریس مل گیا ہے اب میں (کمال) بہت آہستہ رفتار سے دفتر گیا کہ اب کیا کروں گا خریدار کے ایڈریس کو کیونکہ اتنا لمبا عرصہ گذر گیا ہے کمال دفتر پہنچا تو سیکرٹری نے کمپنی کا پتہ دیا جس نے ماربل خریدا تھا جب کمال نے پتہ دیکھا تو کچھ دیر کے لیے اس کا دل دھڑکنا بھول گیا پھر زور کا سانس لیا کیونکہ وہ کمپنی جس نے ماربل خریدا تھا وہ سعودی تھی۔ کمال نے سعودیہ کی فلائیٹ پکڑی اور اسی دن وہ سعودی عرب پہنچا اور سیدھا اس کمپنی کے دفتر پہنچا اور ڈائریکٹر ایڈمن کو ملا اور پوچھا کہ آپ نے اس ماربل کا کیا کیا جو گریس سے خریدا تھا تو اس نے کہا مجھے یاد نہیں پھر اس نے سٹاک روم سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ وہ سفید ماربل جو یونان سے منگوایا تھا کدھر ہے تو انھوں نے کہا وہ ساری مقدار موجود ہے اور اس کو کبھی استعمال نہیں کیا گیا تو کمال ایک بچے کی طرح رونے لگا اور کمپنی کے مالک کو پوری کہانی سنائی. اس نے کمپنی کے مالک کو بلینک چیک دیا اور کہا اس میں جتنی رقم بھرنی ہے بھر لو اور ماربل کی تمام مقدار میرے حوالے کردو جب کمپنی کے مالک کو پتہ چلا کہ یہ تمام ماربل مسجد نبوی میں استعمال ہونا ہے تو اس نے کہا میں ایک ریال بھی نہیں لوں گا اللہ نے یہ ماربل مجھ سے خریدوایا اور پھر میں بھول گیا اس کا مطلب یہی تھا کہ یہ ماربل مسجد نبوی الشريف میں استعمال ہونا ہے۔