محمد یوسف (بوکو حرام کے بانی)

محمد یوسف (29 جنوری 1970 – 30 جولائی 2009)، جنہیں استاد محمد یوسف بھی کہا جاتا ہے، نائجیریا کے ایک سلفی نظریاتی رہنما تھے جنہوں نے 2002ء میں انتہا پسند تنظیم بوکو حرام کی بنیاد رکھی۔ وہ 2009ء تک تنظیم کے سربراہ رہے، جب کہ بوکو حرام کی بغاوت کے دوران ان کی ہلاکت ہوئی۔[1]

محمد یوسف

معلومات شخصیت
پیدائش 29 جنوری 1970(1970-01-29)
جاکسکو، نارتھ-ایسٹرن اسٹیٹ، نائجیریا (موجودہ یوبے)
وفات 30 جولائی 2009(2009-70-30) (عمر  39 سال)
مایدوگوری، برنو، نائجیریا
وجہ وفات ماورائے عدالت قتل   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت نائجیریا   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت استاذ محمد یوسف
تعداد اولاد 12   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ واعظ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری بوکو حرام
کمانڈر سربراہ
لڑائیاں اور جنگیں بوکو حرام بغاوت

ابتدائی زندگی

ترمیم

محمد یوسف کی پیدائش یوبے، نائجیریا کے ایک گاؤں جاکوسکو میں ہوئی۔ انہوں نے مقامی سطح پر تعلیم حاصل کی اور پھر مزید اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کیا۔ انہیں بنیادی طور پر سلفی تعلیمات اور ابن تیمیہ کی تعلیمات سے متاثر سمجھا جاتا ہے، جن سے انہوں نے اپنی انتہا پسندانہ نظریات کی بنیاد رکھی۔[2]

تعلیمات اور نظریات

ترمیم

محمد یوسف کا نظریہ سلفی جہادی آئیڈیالوجی سے منسلک تھا، جس میں وہابی جہادی آئیڈیالوجی اور پرائیویٹ جہاد کے تصورات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو غیر ریاستی مسلح جدوجہد، یا پرائیویٹ جہاد، کے لیے تیار کیا اور شریعت کے سخت نفاذ کی وکالت کا دعوی کیا۔[3]

محمد یوسف کی تعلیمات کا بنیادی محور جدید تعلیمات، خاص طور پر مغربی تعلیم، کی مخالفت پر مبنی تھا۔ انہوں نے 2009ء میں ایک بی بی سی کے انٹرویو میں ارتقاء، زمین کی گولائی، اور بارش کے سائنسی تصور کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا تھا۔[4] انہوں نے کہا:

"ہم یہ مانتے ہیں کہ بارش اللہ کی تخلیق ہے، نہ کہ سورج کی شعاعوں سے بخارات کے عمل سے بننے والا پانی۔ اسی طرح، اگر زمین کی گولائی اللہ کی تعلیمات کے خلاف ہے، تو ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ ہم ڈارون ازم کے نظریے کو بھی مسترد کرتے ہیں۔"

بوکو حرام تنظیم

ترمیم

محمد یوسف نے 2002ء میں بوکو حرام کی بنیاد رکھی، جس کا مطلب "مغربی تعلیم حرام ہے" ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو اسلامی شریعت کے قیام کے لیے تیار کیا اور ریاستی نظام کے خلاف بغاوت کی۔ 2009ء میں ان کی موت کے بعد، ابو بکر شیکاؤ تنظیم کے نئے سربراہ بنے، جنہوں نے تنظیم کو مزید شدت پسند بنا دیا۔[5]

2009ء میں بوکو حرام کی بغاوت کے دوران محمد یوسف کو نائجیریا کی فوج نے گرفتار کیا اور بعد میں مایدوگوری میں پولیس کی تحویل میں ہلاک کر دیا گیا۔ ان کی موت کو مختلف حلقوں نے ریاستی قتل قرار دیا، جس کے بعد بوکو حرام مزید شدت پسند اور خطرناک ہو گئی۔[6]

تنقید

ترمیم

محمد یوسف کی تعلیمات اور بوکو حرام کے نظریات کو اسلامی اصولوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور مختلف مسلم علما نے اس کے طرزِ عمل کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ سعودی مفتی اعظم سمیت دیگر علما نے ان کی تعلیمات کی مذمت کی ہے۔[7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Boko Haram: The Emerging Jihadist Threat in West Africa"۔ Anti-Defamation League۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-25[مردہ ربط]
  2. James Gow (2013)۔ Militancy and Violence in West Africa۔ Routledge۔ ص 74۔ ISBN:9780415821377
  3. Robert A. Dowd (2015)۔ Christianity, Islam, and Liberal Democracy: Lessons from Sub-Saharan Africa۔ Oxford University Press۔ ص 102۔ ISBN:9780190225216
  4. "Nigeria's 'Taliban' enigma"۔ BBC News۔ 28 جولائی 2009
  5. "The Origins of Boko Haram"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-25[مردہ ربط]
  6. "Nigeria row over militant killing"۔ BBC News۔ 31 جولائی 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-27
  7. "Saudi Arabia's Grand Mufti Condemns Boko Haram"۔ Dawn۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-25