مخدومہ جہاں

بہمنی سلطنت کی ملکہ اور بہمنی سلطان علاؤ الدین ہمایوں شاہ کی زوجہ

ملکہ مخدومہ جہاں (وفات: 1476ء) بہمنی سلطنت کی ملکہ اور سلطان علاؤ الدین ہمایوں شاہ کی زوجہ تھی۔

مخدومہ جہاں
معلومات شخصیت
وفات سنہ 1476ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بیدر   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

ملکہ مخدومہ جہاں کے متعلق ابتدائی حالات کی تفاصیل اور بہمنی سلطنت میں شمولیت کا کچھ علم نہیں ہو سکا۔ مخدومہ جہاں بہمنی سلطنت کے گیارہویں حکمران ہمایوں شاہ کی بیوی تھی۔ وہ بڑی زِیرک، معاملہ فہم، بیدار مغز اور مدبر خاتون تھی۔ ہمایوں شاہ 4 ستمبر 1461ء کو انتقال کرگیا تو اُس کا بیٹا نظام شاہ کمسن تھا لیکن اُسے اُس کے باپ ہمایوں شاہ نے اپنا ولی عہد قرار دیتے ہوئے تاج و تخت کا وارث قرار دیا تھا اور اُمرائے دربار کو وصیت کی تھی کہ تمام اُمورِ سلطنت نظام شاہ کی والدہ ملکہ مخدومہ جہاں کے مشورے سے چلائے جائیں۔ مخدومہ جہاں نے خواجہ محمود گاواں اور دوسرے اُمرا کی مدد سے کاروبارِ سلطنت نہایت خوش اسلوبی سے جاری رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ مخدومہ جہاں نے اپنے سرکردہ اُمراء پر مشتمل ایک ’’مجلس مدارالمہام‘‘ بنا رکھی تھی جس میں خواجہہ محمود گاواں سمیت خواجہ جہاں ترک سب سے اہم حیثیت کے مالک تھے اور ملکہ اِن کے مشوروں کو خاص اہمیت دیا کرتی تھی۔ اِن کی مدد سے ملکہ نے تمام اندرونی اور بیرونی خطروں پر قابو پائے رکھا۔ [1]

محمد شاہ لشکری کے عہد میں

ترمیم

نظام شاہ اپنی والدہ کا بے حد اطاعت گزار تھا لیکن وہ بادشاہت کے تیسرے سال ہی 30 جولائی 1463ء کو فوت ہو گیا اور اُس کی جگہ اُس کا بھائی محمد شاہ سوم لشکری تخت نشین ہوا۔ وہ بھی کمسن اور ملکہ مخدومہ جہاں کی سرپرستی کا ہی محتاج تھا۔ مخدومہ جہاں کو خواجہ محمود گاواں جیسا لائق وزیر میسر آیا تھا اور جس کے بھرپور تعاون سے بہمنی سلطنت قائم رہ سکی۔ [2] 1470ء میں مخدومہ جہاں کو یہ اطلاع ملی کہ خواجہ جہاں ترک نے سلطنت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ملکہ نے ایسی تدابیر اختیار کیں کہ خواجہ جہاں ترک کا منصوبہ ناکام ہو گیا اور وہ خود مارا گیا۔ محمد شاہ سوم لشکری جب چودہ سال کا ہوا تو مخدومہ جہاں نے اُس کی شادی ایک شاہزادی سے کردی اور پھر مہماتِ سلطنت محمد شاہ سوم لشکری کے سپرد کر دیں اور کود گوشہ نشینی اِختیار کرلی۔ تاہم محمد شاہ سوم لشکری اُمورِ سلطنت میں اُس سے برابر مشورہ لیتا رہا اور وہ ہر روز والد کو سلام کے لیے جاتا تھا اور بے حد تعظیم و تکریم کیا کرتا تھا۔ [3]

مخدومہ جہاں کے اواخر ایام

ترمیم

گوشہ نشینی کے زمانہ میں ملکہ مخدومہ جہاں کا بیشتر وقت عبادت و تلاوتِ قرآن میں گزرتا تھا۔ 1476ء میں جب حاکم نلگوان نے سرکشی اختیار کی تو محمد شاہ سوم لشکری اُس کی سرکوبی کے لیے نلگوان گیا اور بیٹے سے دِلی لگاؤ کی وجہ سے اُس کے ساتھ ملکہ بھی چلی گئی۔۔ اثنائے سفر میں مختصر سی علالت کے بعد ملکہ مخدومہ جہاں کا انتقال ہو گیا۔ میت بیدر لائی گئی اور وہیں تدفین ہوئی۔[4]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. طالب ہاشمی: تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، صفحہ 365 ۔
  2. طالب ہاشمی: تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، صفحہ 366/357۔
  3. طالب ہاشمی: تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، صفحہ 368۔
  4. طالب ہاشمی: تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، صفحہ 368۔