گوہر شاد مسجد ایران کے صوبہ خراسان کے شہر مشہد کی ایک معروف مسلم عبادت گاہ ہے۔ یہ مسجد تیموری سلطنت کے دوسرے فرمانروا شاہ رخ تیموری کی اہلیہ گوہر شاد کے حکم پر 1418ء میں تعمیر کی گئی اور اسے اس وقت کے معروف ماہر تعمیر غوام الدین شیرازی نے تعمیر کیا جو تیموری عہد کی کئی عظیم الشان تعمیرات کے معمار بھی ہیں۔ صفوی اور قاچار دور میں اس مسجد میں تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا۔ مسجد میں 4 ایوان اور 50 ضرب 55 میٹر کا ایک وسیع صحن اور متعدد شبستان بھی ہیں۔ مسجد کا گنبد 1911ء میں روسی افواج کی گولہ باری سے شدید متاثر ہوا۔ یہ مسجد 15 ویں صدی کی ایرانی تعمیرات کا اولین اور اب تک محفوظ شاہکار ہے۔ اس کے داخلی راستے میں سمرقندی انداز کی محراب در محراب ہیں جبکہ بلند مینار بھی اس کی شان و شوکت کو مزید بڑھاتے ہیں۔

گوہر شاد مسجد کا اندرونی حصہ ایرانی کاریگروں کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے

بیرونی روابط

ترمیم

مسجد گوہرشاد جو مشھد میں حرم علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام کے جنوب میں واقع ہے جس کو شاہ رخ کی اہلیہ گوہرشاد بیگم کے حکم سے تعمیر کی گیا تھا۔ ٹائل کے کام کی خوبصورتی اور اس مسجد کے طرز تعمیر کی وجہ سے ، گوہر شاد مسجد تیموری دور میں ایرانی فن تعمیر کے شاہکاروں میں سے ایک ہے ۔ اور علی بن موسیٰ الرضا علیہ سلام کی قبر مطہر سے نزدیک ترین ہونے کی وجہ سے ، اسے ایران کی سب سے اہم اور معروف ترین مساجد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اس لیے کچھ لوگ اسے ایران کی سب سے زیادہ سیاحتی مسجد سمجھتے ہیں۔

مسجد گوہر شاد

ترمیم

مسجدگوہرشاد کا نیلا فیروزی گنبد علی بن موسیٰ الرضا کے مزار کے گنبد سے متصل ہے۔

مذہب

ترمیم

فرقہ:اسلام (شیعہ) ملکیت:آستان قدس رضوی جگہ:مشہد معمار (زبانیں):قوام الدین شیرازی انداز:تیموریز بانی: گوہرشادبیگم ٹھیکیدار: گوہرشادبیگم سنگ بنیاد: 821ھ / 1418ء جگه: پندرہ ہزار سے زیادہ لوگ پهیلا هوا : 150 میٹر صحن قدس کے ساتھ، 100 میٹر اس کے بغیر چوڑائی: 85 میٹر اندرونی علاقہ: 8798 گنبد :1 مینار: 2

گوہرشاد مسجد کو قدرتی اور انسانی عوامل کی وجہ سے کئی بار اور مختلف اوقات میں نقصان پہنچا ہے۔ جن میں سے ایک عامل، 1084سال کے زلزلے میں، ایوان مقصورہ کو نقصان پہنچا اور پھر اسے بحال کیا گیا تھا، اسی طرح دوبارہ 1330 ہجری قمری میں روسیوں کی گولہ باری کے بعد مسجد کا گنبد اور ایوان خراب ہو گئے کہ 1339 ہجری قمری میں مسجد کا گنبد اور ایوان مقصودہ اور مسجد کے مشرقی اور مغربی ایوان کی مرمت کی گئی۔ مقصورہ ایوان کا گنبد 1339 میں بنیادی مرمت کے لیے خراب ہو گیا تھا اور اس کی تعمیر نو کا کام ایرانی معماروں کے ذریعہ سے ، انجینئر عباس آفرندہ کی سرپرستی میں ماضی کی انہی خصوصیات کا احترام کرتے ہوئے اور اصل خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے شروع کیا گیا اور یہ 1341 میں مکمل ہوا۔ اور اسی زمانے میں ایوان کے اندر موجود چبوترے کے پتھروں کو تبدیل کر دیا گیا اور ایوان کے فرش کو سنگ مرمر کے پتھروں سے ڈھانپ دیا گیا اور 1345 شمسی میں گنبد کے ارد گرد کے حصوں کو خوبصورت ٹائلوں سے مزین کیا گیا۔ گوہرشاد کا نام خوبصورت ٹائلوں سے دو جگہوں پر لکھا گیا ہے : ایک چاندی کے دروازے کے اوپر جو دارالسیاد کی طرف جاتا ہے اور دوسرا ایوان مقصورہ پر، جو شہزادہ بائیسنقر کی خوبصورت تحریر کے ذریعہ لکھا ہوا ہے ۔ درمیانی حصے میں محمد رضا امامی کے نام کے نوشتہ جات ہیں ۔ اس مسجد کی تعمیر کا طریقہ چھار ایوان کی طرز کا ہے اور گذشتہ سالوں میں گنبد کی چار مرتبہ مرمت کی گئی ہے۔ اس عمارت کا طرز تعمیر تیموری طرز کا ہے اور اس کے معمار پروفیسر قوام الدین شیرازی کا نام ذکر کیا گیا ہے۔

بنیاد اور مقام

ترمیم

یہ مسجد، رضوی مقبرے کے جنوب میں واقع ہے اور دارالسیاد اور دارالحفاظ کے حال سے متصل ہے۔ اس کا ایک صحن جس کا رقبہ 2800 مربع میٹر ہے اور اس کا بنیادی ڈھانچہ 9400 مربع میٹر ہے۔ مسجد کی عمارت میں 4 بڑے ایوان اور 7 شبستان شامل ہیں۔ ایوان مقصورہ کے پیچھے کا گنبد مسجد کے مختلف حصوں کو ایک منزلہ شبستان کے ذریعہ سے جوڑتا ہے۔ جنوبی ایوان کو ایوان مقصورہ کہا گیا ہے اور شمالی، دارالسیاد کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مشرقی ایوان کو اعتکاف اور مغربی کا نام شیخ بہاؤ الدین ہے۔ جنوبی ایوان کے رسم الخط متن کے مطابق یہ مسجد 821قمری/ 1418 عیسوی میں گوہر شاد بیگم کے حکم سے تعمیر کی گئی اور گذشتہ سالوں میں اس مسجد کو بہت سے نقصانات پہنچے ہیں ۔ گوہرشاد مسجد کی تعمیر ، - تقریباً 12 سال تک جاری رہی اور عمارت کے مرکزی معمار غالباً قوام الدین شیرازی تھے ، جو تیموری دور کے مشہور ترین معماروں میں سے ایک تھے ۔

خصوصیات اور سجاوٹ

ترمیم

گوہرشاد مسجد ایک کلاسک مسجد ہے جو چار ایوان والی مساجد کی طرز پر بنائی گئی ہے۔ مسجد کا صحن تقریباً مربع شکل کا ہے اور چار بڑے تاریخی ایوان سے گھرا ہوا ہے اور ایوان کے درمیان فاصلے پر سات بڑے شبستان اور چھ داخلی اور خارجی دروازے ہیں۔

مسجد کے صحن کی لمبائی تقریباً 56.13 میٹر اور چوڑائی 51.18 میٹر ہے اور کل رقبہ تقریباً 2873 مربع میٹر ہے۔ مسجد کے اطراف میں عالیشان اور اونچے ایوان ایک دوسرے کے متوازی بنائے گئے ہیں۔ === ایوان ھا

===

ایوان مقصورہ (جنوبی): مسجد کا سب سے اہم ایوان ۔ اس کا رقبہ تقریباً 500 مربع میٹر ، لمبائی 37 میٹر اور اونچائی 25.5 میٹر ہے، یہ ایرانی مساجد کے سب سے اہم ایوان میں سے ایک ہے جہاں مختلف فنون استعمال ہوئے ہیں۔ بایسنقر (گوہرشاد کا بیٹا) کہ جو تیموری دور کے بہترین مصنفین میں سے ایک تھا، اس ایوان پہ اس کی خوبصورت تحریر سنگ مرمر کی ٹائلوں پر مسجد کی تعمیر کی تاریخ کے ساتھ لکھی گئی ہے ۔ مسجد کا محراب ایوان کے وسط میں واقع ہے جو سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے۔ مسجد کا گنبد اسی ایوان کے اوپر ہے ایوان کا ایک اور حصہ منبر ہے جسے آج " صاحب الزمان " کہ نام سے یاد کیا جاتا ہے، جو اخروٹ اور ناشپات ی کی لکڑی سے بنا ہے اور اس بہت دقت سے بنایا گیا ہیں۔ اس منبر کا معمار "محمد نجار خراسانی" ہے، جو فتح علی شاہ قاجار کے دوران کا ایک نامعلوم مصور تھا ۔ اس منبر کی مرمت حیدر نیکنام گلپائیگانی نے 1325/1946 میں کروائی تھی۔

گنبد اور میناریں

ترمیم

گنبد، ایوان مقصورہ کے اوپر 41میٹر کی اونچائی پہ واقع ہے اس کی باہر والی سطح کو دلکش اینٹوں کے ساتھ اور خط کوفی کی تحریر کے ذریعہ مزین کیا گیا ہے اس گنبد کے دونوں طرف دو منار ہیں جن میں سے ہر ایک کی اونچائی 43 میٹر ہے یہ منارہ زمین سے شروع ہوتے ہیں اور ایوان مقصورہ کے ساتھ ساتھ اوپر کی جانب گلدستہ کی مانند بن جاتے ہیں بیرونی گنبد کی گولائی 85.61 میٹر ہے، اسے 1341 سال میں کچھ پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے توڑ دیا گیا تھا اور موجودہ گنبد کو نئے مواد سے دوبارہ تعمیر کر کے سجایا گیا تھا۔