مسلم مسجد
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
مسلم مسجد لوہاری دروازے کے باہر واقع ہے۔ مسلم مسجد کی عمارت بہت قدیم نہیں مگر عمارت میں مغل فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے عمارت کی تعمیر میں سنگ سرخ کا استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کے ہال کے باہر فرش پر سرخ پتھر کی بڑی بڑی سلیبیں نصب کی گئی ہیں اور ہر دوسری سِل پر مسجد کی عمارت کا نمونہ بنایا گیا ہے مسجد کا مینار بجانب سڑک سیدھ مسجد کے شرقی جنوبی حصے میں واقع ہے اور مسجد کے ہال کے داخلی دروازے پر چار چھوٹے چھوٹے مینار تعمیر کیے گئے ہیں ان کے درمیان میں انتہائی خوبصورت چھوٹے چھوٹے چارگنبدوں کے نمونہ جات ہیں۔ مسجد کا ہال اند سے بھی بے حد شاندار ہے۔
تاریخ
ترمیمقیام پاکستان سے قبل مسجد کی کل رقبہ ڈیڑھ مرلہ زمین پر مشتمل تھا۔ یہ مسجد عین اس مقام پر تھی جہاں پر انگریز سرکار سے قبل سکھ عہد میں شہر کے گرد خندق تھی۔ اس خندق کو انگریز سرکار نے مٹی سے بھروا دیا تھا۔ مسجد کی پرانی عمارت کے قریب ایک قدیمی کنواں بھی تھا جس سے اردگرد کی آبادی کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ مسلم مسجد سیاسی حوالے سے بھی کافی اہمیت کی حامل ہے۔ سنہ 1925ء میں یہیں پر انجمن خادم المسلمین قائم ہوئی۔ 1937ء سے 1947ء تک یہ مسجد حصول پاکستان کی تحریک کا بھی زبردست مرکز رہی۔ سنہ 1977ء کی تحریک نظام مصطفٰی کے دوران میں بھی مسجد کو خصوصی اہمیت حاصل رہی 9 اپریل 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاج کے دوران مسلم مسجد کے باہر فائرنگ سے نو سے دس افراد بھی مارے گئے۔
وجہ تسمیہ
ترمیماس مسجد کا نام مولانا محمد بخش مسلم کی وجہ سے مسلم مسجد ہے۔
مولانا محمد مسلم
ترمیممولانا محمد بخش مسلم 18 فروری 1887ء کو چھتہ بازار اندرون لاہور میں پیدا ہوئے 1918ء میں بی۔ اے کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا اس سال یونیورسٹی سے صرف دو مسلمان طالب علم تھے جنھوں نے بی۔اے پاس کیا۔ دوسرے شیخ محمد دین تھے۔مولانا اعلیٰ پاے کے خطیب تھے۔ 1924ء میں جب شدھی کی تحریک زوروں پر تھی تب اہل لاہور کی اپیل پر مولانا محمد بخش مسلم نے دلائل سے اسلام کا دفاع کیا ۔ مولانا نے تحریکنظام مصطفٰی میں بھی اہم کردار ادا کیا آپ نے 1987ء میں وفات پائی مسلم مسجد چوک انار کلی کے جنوب مغربی گوشے میں ایک تہ خانے کے اندر مولانا محو خواب ابدی ہیں۔
عمارت
ترمیممسجد کی تعمیرکا احوال نقوش لاہور نمبر میں یوں درج ہے ’’حضرت عبد الصمد بانی سلسلہ محدیہ نے 9 جون 1950ء بروز جمعہ اس مسجد کی پہلی اینٹ رکھی اور پونے دو لاکھ روپے کے صرف سے دس سال میں یہ حسین و جمیل مسجد اور اس کا بلند و عالی شان مینار بن کر تیار ہوا۔ اس مسجد کا فن تعمیر اپنی نظیر آپ ہے۔ جنوری 1955ء میں یہاں مدرسہ کریمیہ کے شعبہ تجوید کا قیام عمل میں آیا پھر جامعہ مدینہ کے تعاون سے ایک اور دار العلوم بھی قائم کیا گیا۔ اس مسجد کی کرسی زمین سے ایک منزل بلند ہے۔ مسجد، صحن اور حوض وغیرہ سب اوپر ہیں۔ نیچے دکانوں کے علاوہ ایک پریس اور فری ہسپتال ہے۔‘‘ مسلم مسجد کی عمارت بہت قدیم نہیں مگر عمارت میں مغل فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے عمارت کی تعمیر میں سنگ سرخ کا استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کے ہال کے باہر فرش پر سرخ پتھر کی بڑی بڑی سلیبیں نصب کی گئی ہیں اور ہر دوسری سِل پر مسجد کی عمارت کا نمونہ بنایا گیا ہے مسجد کا مینار بجانب سڑک سیدھ مسجد کے شرقی جنوبی حصے میں واقع ہے اور مسجد کے ہال کے داخلی دروازے پر چار چھوٹے چھوٹے مینار تعمیر کیے گئے ہیں ان کے درمیان میں انتہائی خوبصورت چھوٹے چھوٹے چارگنبدوں کے نمونہ جات ہیں۔ مسجد کا ہال اند سے بھی بے حد شاندار ہے۔