معاہدہ امرتسر سکھ سلطنت اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین طے پانے والا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت سکھ سلطنت اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرحدی حدود دریائے ستلج کو قرار دِیا گیا۔ یہ معاہدہ 25 اپریل 1809ء کو طے پایا۔

مہاراجا رنجیت سنگھ

تاریخی پس منظر

ترمیم

1806ء سے 1808ء کے درمیان مہاراجا رنجیت سنگھ نے دریائے ستلج کے پار مشرقی سمت میں واقع سکھ ریاستوں کا دورہ کیا اور اُن کے سرداروں سے نذرانے بھی قبول کیے۔ اُن ریاستوں پر مہاراجا کا وقار خوب جم گیا۔ 1808ء میں جب ڈلی والی مثل کے راجا تارا سنگھ گھیبہ کی وفات کے بعد ساری مثل کے مقبوضات مہاراجا کے قبضہ میں آگئے تو دریائے ستلج پار مشرقی ریاستوں کے راجے مہاراجے اور رئیس خوفزدہ ہوئے۔ سب نے ریاست پٹیالہ کے گاؤں سمانہ میں ملاقات کی اور اپنی اپنی ریاستوں کو برقرار رکھنے کے لیے طرزِ عمل اختیار کرنے کی حکمت سوچنا تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری دریائے جمنا تک پہنچ چکی تھی اور آئندہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی مزید مشرقی جانب اپنی عملداری بڑھانے کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔ اِدھر دریائے ستلج کے مغربی اطراف سے مہاراجا رنجیت سنگھ اپنی سلطنت کی توسیع کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ دریائے ستلج پار کے سکھ سرداروں نے خیال کیا کہ ہم دو زبردست حکومتوں کے درمیان گھر گئے ہیں اور ہمارے لیے اپنی حیثیت کو قائم رکھنے کے لیے کسی ایک سلطنت سے الحاق کرلینا ضروری ہے۔ اگرچہ چند سکھ سردار ایسٹ انڈیا کمپنی کے تعلقات میں آکر اُن کی نیک نیتی کو دیکھ چکے تھے لیکن اُن میں سے چند سرداروں کو شکوک و شبہات تھے، مگر وہ سب کے سب مہاراجا رنجیت سنگھ کی دست درازیوں کے بھی قائل تھے۔ اِس لیے بحث و مباحثہ کے بعد یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ انھیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی تحویل میں آنا چاہیے اور اِسی رائے پر سب نے اتفاق کر لیا۔[1] سکھ سرداروں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے سفارت کاری کا سوچا اور ایک سفارت برطانوی ریزیڈینٹ کے پاس بھیجی۔ برطانوی ریزیڈینٹ سے التجاء کی گئی کہ ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کی تحویل میں آنا چاہتے ہیں لیکن ریزیڈینٹ نے کوئی خاطرخواہ جواب نہ دِیا۔ صرف یہ وعدہ کیا کہ میں گورنر جنرل ہندوستان کو اُن کی درخواست بھیج دوں گا اور جو فیصلہ ہوگا، اُس فیصلے سے سب کو آگاہ کر دیا جائے گا۔[2]

سکھ سردار مایوس ہوکر ابھی دہلی سے واپس آ رہے تھے کہ اِس معاملے کی خبر مہاراجا رنجیت سنگھ کو پہنچی تو مہاراجا نے فوراً اپنا ایجنٹ بھجوا کر انھیں امرتسر دربار میں بلوایا۔ سبھی سردار امرتسر دربار حاضر ہوئے اور مہاراجا اُن سے بڑے تپاک سے پیش آیا۔ 24 نومبر 1808ء کو دوبارہ مہاراجا نے ریاست پٹیالہ کے راجا سے ملاقات کی اور سبھی سرداروں کے ساتھ دوستی کا عہد کیا گیا۔ ستمبر 1808ء میں جب مہاراجا قصور کے قریب خیمہ زن تھا تو وہ غالباً دریائے ستلج پار کے علاقوں کا دورہ کرنے کا قصد کر رہا تھا تو انگریزی ایجنٹ مٹکاف 11 ستمبر 1808ء کو قصور کے قریب کھیم کرن کے مقام پر مہاراجا کے پاس حاضر ہوا۔ مہاراجا نے استقبال کیا اور مہمان نوازی کی۔ مہاراجا نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاہدے کی خاطر شرائط پیش کیں اور مٹکاف نے گورنر جنرل کی شرائط مہاراجا کو پیش کر دیں۔ 9 فروری 1809ء کو برطانوی ریزیڈینٹ ڈیوڈ آکٹرلونی نے چند شرائط پر مبنی اطلاع نامہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی خدمت میں پہنچایا کہ اگر اُن شرائط پر مہاراجا کاربند ہوجائیں تو ایسٹ انڈیا کمپنی سکھ سلطنت کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرنے کو تیار ہوگی۔مہاراجا نے معاہدے کی شرائط پر ازسر نو غور کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی سے دوستی کرنے کو ہی مصلحت جانا۔ اِسی اثنا میں برطانوی ریزیڈینٹ مٹکاف نے شرائط میں کانٹ چھانٹ کرکے نیا مسودہ تیار کیا اور یہ نیا مسودہ کلکتہ سے آگیا اور دونوں فریقین کی متفقہ آراء سے منظورکرلیا گیا۔ یہ عہدنامہ 25 اپریل 1809ء کو امرتسر میں منظور ہوا۔[3] 30 مئی 1809ء کو گورنر جنرل ہندوستان لارڈ منٹو گلبرٹ نے کلکتہ کونسل میں منظور کر لیا اور اِس عہدنامے پر اپنی مہر اور دستخط ثبت کردیے۔

یہ عہدنامہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور دربارِ لاہور کے مابین قرار پاتا ہے کہ:

  • یہ عہدنامہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور دربارِ لاہور کے مابین ہمیشہ کے لیے دوستی رہے گی اور پہلا فریق ( ایسٹ انڈیا کمپنی) دوسرے فریق (دربارِ لاہور ) کو بہت باعزت طاقتوں میں شمار کرے گا اور برطانوی حکومت کو مہاراجا رنجیت سنگھ کے علاقے اور رعیت کے ساتھ جو دریائے ستلج کے شمال کی طرف ہے واقع ہے، سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔
  • مہاراجا کے قبضہ میں آیا ہوا علاقہ یا اُس کے قریبی علاقوں میں جو دریائے ستلج کے بائیں اطراف واقع ہیں، اُس سے زیادہ فوج نہ رکھے گا جو اندرونی انتظام کے لیے ضروری ہے اور نہ ہمسائیگی والے رئیسوں یا والیانِ ریاست یا اُن علاقوں سے کوئی واسطہ رکھے گا۔
  • مندرجہ بالا شرائط میں سے کسی ایک کو توڑنے یا آپس کے دوستانہ برتاؤ میں پورا نہ اُترنے کی صورت میں یہ عہدنامہ منسوخ سمجھا جائے گا۔

نتائج

ترمیم

اِس معاہدے کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکھ سلطنت کے مابین دوستانہ تعلقات مہاراجا رنجیت سنگھ کی وفات تک خوش اسلوبی سے قائم رہے۔ پہلی اینگلو سکھ جنگ (1845ء) تک ایسٹ انڈیا کمپنی اِس معاہدے پر کاربند رہی مگر سکھ سلطنت نے اِس معاہدے پر سے عملداری اُٹھا لی جس کے پیش نظر پہلی اینگلو سکھ جنگ میں دربار لاہور میں برطانوی ریزیڈینٹ مقرر ہوا اور دوسری اینگلو سکھ جنگ (1849ء) کے تحت سکھ سلطنت ختم کردی گئی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. سیتا رام کوہلی: مہاراجا رنجیت سنگھ، صفحہ 97، 98۔ مطبوعہ لاہور، 1932ء
  2. سیتا رام کوہلی: مہاراجا رنجیت سنگھ، صفحہ 98۔
  3. سیتا رام کوہلی: مہاراجا رنجیت سنگھ، صفحہ 106۔

مزید دیکھیے

ترمیم