برلن معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا جو 13 جولائی 1878 کو مختلف عالمی طاقتوں کے درمیان دستخط کیا گیا۔ یہ معاہدہ روس-ترک جنگ (1877–1878) کے بعد بالکان کے علاقے میں ہونے والے اہم سیاسی، فوجی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا ایک سنگ میل تھا۔ اس معاہدے میں برطانیہ، آسٹریا-ہنگری، فرانس، جرمنی، روس اور عثمانی سلطنت کے نمائندوں نے حصہ لیا۔ یہ معاہدہ اس وقت کے عالمی سیاسی منظر نامے میں ایک اہم واقعہ تھا، جس کا مقصد بالکان کی سیاسی ساخت کو دوبارہ ترتیب دینا تھا۔[1]

معاہدہ برلن
Treaty of Berlin
آسٹریا ہنگری، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور آئرلینڈ، اٹلی، روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان مشرق کے معاملات کے حل کے لیے معاہدہ
برلن کانگریس کے بعد جنوب مشرقی یورپ
سیاق و سباقبرلن کی کانگریس، روس ترک جنگ (1877–1878) کے بعد
دستخط13 جولائی 1878ء (1878ء-07-13)
مقامبرلن، جرمن سلطنت
فریق

معاہدہ کا پس منظر

ترمیم

پیرس امن معاہدہ 1856 کے بعد سےعثمانی سلطنت کا اثر و رسوخ کم ہو رہا تھا، اور روس نے اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ 1870 میں روس نے قسطنطنیہ معاہدہ کی خلاف ورزی کی، جس کے نتیجے میں 1875 میں ہرزیگووینا اور بلغاریا میں بغاوتیں ہوئیں، جنھوں نے بالکان میں ایک نئی مشرقی بحران پیدا کی۔ ان بغاوتوں کا نتیجہ 1877 میں روس-ترک جنگ کی صورت میں نکلا، جس میں روس نے عثمانی سلطنت کے خلاف فیصلہ کن فتح حاصل کی۔ اس جنگ کے بعد، مختلف عالمی طاقتوں نے بالکان میں طاقت کے توازن کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی، اور اس کا نتیجہ برلن معاہدے کی صورت میں نکلا۔[2]

معاہدے کی شرائط

ترمیم

برلن معاہدے میں سب سے اہم فیصلہ بلغاریا کے مستقبل کا تھا۔ بلغاریا کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا، تاہم اس کی سرزمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔

پرنسپلٹی آف بلغاریا:بلغاریا کا مرکزی علاقہ جو عملاً آزاد تھا۔

مشرقی رومیلیا:یہ علاقہ عثمانی سلطنت کے تحت رہ گیا اور بلغاریا کے اندر خودمختار ریاست کے طور پر عمل کرتا رہا۔

مقدونیہ:یہ خطہ عثمانی سلطنت کے تحت واپس کر دیا گیا، جو روس کے منصوبوں کے برخلاف تھا، جنھوں نے بلغاریا کو ایک بڑی خودمختار ریاست بنانے کی کوشش کی تھی۔

معاہدے کے تحت رومانیہ، سربیا اور مونٹی نیگرو کو باضابطہ طور پر آزاد ریاستیں تسلیم کیا گیا، حالانکہ یہ ریاستیں عملاً پہلے ہی آزاد ہو چکی تھیں۔ روس نے کچھ اہم علاقے، جیسے باتومی اور ادجارہ کو عثمانی سلطنت سے حاصل کیا، لیکن بایزید اور الاشکرد جیسے اہم علاقے عثمانیوں کو واپس کر دیے گئے۔ اسی طرح، روس نے کچھ اور علاقوں جیسے کارس اور ارداہان کو بھی حاصل کیا۔

یورپی طاقتوں کی مداخلت

ترمیم

برلن معاہدہ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ روس کی فوجی موجودگی بلغاریا میں نو ماہ تک محدود رہے گی، جس سے روسی افواہج کی نقل و حرکت اور امدادی سامان کی ترسیل پر پابندی لگ گئی۔ اس کے علاوہ، معاہدے کے تحت برطانیہ اور فرانس نے بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بعض شرائط پر زور دیا۔ برطانیہ نے ترکی کے جنوب میں ترک حکمرانی کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے مداخلت کی، تاکہ روسی اثر و رسوخ کو محدود کیا جا سکے۔

نئے آزاد ریاستوں کی تشکیل

ترمیم

معاہدہ برلن کے بعد رومانیہ نے 1881 میں بادشاہت کا اعلان کیا، سربیا نے 1882 میں بادشاہت قائم کی اور مونٹی نیگرو نے 1910 میں اپنا بادشاہت کا اعلان کیا۔ بلغاریا نے 1908 میں مکمل آزادی کا اعلان کیا، جب اس نے مشرقی رومیلیا کے ساتھ اتحاد کیا۔ ان نئے آزاد ریاستوں کی آزادی نے بالکان میں طاقت کے توازن کو دوبارہ مرتب کیا اور اس کا اثر یورپ کے دوسرے حصوں میں بھی محسوس ہوا۔ تاہم، ان آزاد ریاستوں کی تشکیل کے بعد بھی بالکان میں کشیدگی برقرار رہی، کیونکہ عثمانی سلطنت کی باقیات اور نئی آزاد ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ متنازع رہیں۔

بین الاقوامی اثرات

ترمیم

برلن معاہدہ کے اثرات عالمی سطح پر بہت اہم ثابت ہوئے۔ اس نے بین الاقوامی تعلقات میں نئے رجحانات کو جنم دیا اور اس کے بعد کے برسوں میں بالکان کی سیاست میں مزید تبدیلیاں آئیں۔ معاہدہ نے اقلیتی حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات بھی متعارف کرائے، جیسے کہ رومانیہ کو غیر عیسائی اقلیتوں (یہودیوں اور مسلمانوں) کو مکمل شہری حقوق دینے کی ضرورت تھی۔

طویل مدتی اثرات

ترمیم

برلن معاہدہ کا طویل مدتی اثر بالکان کے علاقوں میں تنازعات اور یورپی طاقتوں کے تعلقات پر پڑا۔ اس معاہدے کی بنیاد پر عثمانی سلطنت کا یورپ میں اثر و رسوخ مزید کم ہوا اور بالکان میں روسی اور آسٹریا-ہنگری کے درمیان رقابت میں اضافہ ہوا۔ بالکان میں ایک نیا سیاسی اور فوجی توازن قائم ہوا، جو پہلی جنگ عظیم سے پہلے تک اثرانداز رہا۔ اس معاہدے نے عالمی طاقتوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی نوعیت کو بھی تبدیل کیا، اور اس کا اثر پہلی جنگ عظیم کی سیاست پر بھی پڑا۔

نتیجہ

برلن معاہدہ نے بالکان کے علاقے میں سیاسی تبدیلیوں کا آغاز کیا اور یورپ کے داخلی معاملات میں مداخلت کا ایک نیا باب کھولا۔ اس معاہدے کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کی یورپی سرزمینوں پر نئے خطوط کھینچے گئے اور اس نے یورپی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں ایک نیا توازن قائم کیا۔ اگرچہ اس معاہدے کے ذریعے بعض ریاستوں کی آزادی تسلیم کی گئی، مگر اس نے بالکان میں ہونے والی کشیدگیوں کو مکمل طور پر حل نہیں کیا، جس کا اثر بعد میں عالمی سطح پر دیکھا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Congress of Berlin | Significance & Facts | Britannica"۔ www.britannica.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2024 
  2. "Russo-Turkish War | Encyclopedia.com"۔ www.encyclopedia.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2024 

بیرونی روابط

ترمیم
  • "Treaty between Great Britain, Germany, Austria, France, Italy, Russia, and Turkey for the Settlement of Affairs in the East: Signed at Berlin, July 13, 1878 (Translation)"۔ The American Journal of International Law۔ ج II ش 4, Supplement, Official Documents: 401–424۔ اکتوبر 1908۔ DOI:10.2307/2212670۔ JSTOR:2212670۔ S2CID:246011615