معاہدہ کراچی
معاہدہ کراچی 1949 میں عمل میں آیا۔ اس پر پاکستان اور بھارت کے فوجی ترجمانوں نے دستخط کیے۔جبکہ اس کی نگرانی اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان نے کی۔اس معاہدے کا مقصد جموں و کشمیر میں سیر فائر لائن کا قیام تھا۔
ریاست جموں و کمشیر میں سیزفائر لائن کے قیام کے لیے معاہدہ | |
---|---|
قسم | Delimitation of Cease-Fire Line |
سیاق و سباق | پاک بھارت جنگ 1947 |
مسودہ | 13 اگست 1948 |
دستخط | 27 جولائی 1949 |
مقام | کراچی، پاکستان |
ثالث | United Nations Commission for India and Pakistan |
مذاکرات کار | پاکستان اور بھارت کے فوجی ترجمان |
دستخط کنندگان |
|
فریق | |
تحویل دار | |
زبانیں | انگریزی |
موجودہ صورت حال
ترمیمپاک-بھارت جنگ بندی معاہدہ (سی-ایف-اے) مشکلات میں ہے۔ 2003ء میں کیا گیا یہ معاہدہ جس نے 15 سال تک دونوں اطراف سرحدی کشیدگی کو قابومیں رکھا اب دونوں فوجوں کے بڑھتے تنازعات کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہے۔ دونوں اطراف سے چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ فائرنگ اب معمول کا حصہ لگتی ہے۔ حالیہ سالوں میں ایسی نوعیت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی سرکاری ذرائع کے مطابق ان واقعات کی تعداد 2015ء میں 152 تھی جو 2016ء میں 228، 2017ء میں 860 اور اس سال کے پہلے دو مہینوں میں 432 تک پہنچ چکی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سی-ایف-اے میں حالیہ خلاف ورزی کے پیچھے کچھ محرکات ہیں ، جیسا کہ 2010ء میں کشمیر میں شورش کی واپسی، بھارت کی سرجیکل سٹرائیک اور پاک-بھارت بگڑتے ہوئے تعلقات ۔ تاہم اس سب کے پیچھے ایک اور واحد عنصر بھی کارفرما ہے اور وہ ہے حکومتی نظر اندازی۔ سی-ایف-اے کو شروع کرتے ہوئے اس کے دیرپا ہونے کا کوئی خیال نہ تھا تاہم معاہدے نے حیرت انگیز طور پر سرحدی خلاف ورزیوں کو کنٹرول کرنے میں اگلے کئی سال کامیابی سمیٹی ۔ بد قسمتی سے دونوں حکومتوں نے اس اہم وقت میں معاہدے کے سقم دور کرنے کی کوشش نہ کی۔
سی-ایف-اے کے ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے اس کی شروعات کو دیکھنا ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کی کشمیری سرحد 1948ء کی جنگ کے بعد سے گرم رہی ہے جبکہ سرحدی کشیدگی میں اضافہ 1989ء میں کشمیر میں شورش کے بعد میں ہوا۔ 1990ء کی دہائی میں دونوں افواج نہ صرف فائرنگ کا تبادلہ اور آرٹیلری شیلنگ کر رہی تھیں بلکہ ایک دوسرے کی فوجی چوکیوں پر بھی حملہ آور ہو رہی تھیں۔ اس کشیدگی کا نقطہِ عروج 1999ء کی کارگل جنگ تھی جب کشمیری مجاہدین کے روپ میں پاکستانی فوجیوں نے بھارتی علاقے پر قبضے کی کوشش کی۔ جنگ کا خاتمہ کشیدگی کی کمی کا باعث نہ بن سکا بلکہ اس میں شدت آ گئی۔ ایسے ہی کچھ حالت کے اندر سی-ایف-اے معاہدہ عمل پزیر ہوا۔
ماضی میں کئی بار ناکام ہونے کے بعد اسلام آباد اور نئی دہلی نے 2003ء میں امن کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے۔ پاکستان نے ایک عوامی بیان میں لائن آف کنٹرول پر غیر مشروط اور یک طرفہ جنگ بندی کی پیشکش کی۔ جواب میں بھارت نے اعلان کیا کہ وہ نہ صرف اس پیشکش کے حوالے سے مثبت ہے بلکہ لائن آف کنٹرول کے علاوہ دونوں ملکوں کی باقی کی سرحد اور سیاچن پر بھی جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔اور اس طرح سی-ایف-اے ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشنز کی ‘ہاٹ لائن’ کے تحت 25 نومبر 2003ء کو نافذ العمل ہو گیا۔ یہ ہاٹ لائن عشروں تک کم نوعیت کے سرحدی تنازعات، جیسے فضائی حدود کے خلاف ورزی، کے معاملات کو حل کرتی رہی۔ تاہم اب بھارت اور پاکستان کو ساری سرحد پر وسیع مذاکرت کرنے کا کہا گیا۔ معاہدہ فون پر طے پایا اور ڈی-جی-ایم-اوز نہ تو اس وقت ملے اور نہ اگلے 10 سال تک ملاقات کی۔ نتیجتاً دونوں اطراف سے کسی شخص نے معاہدے پر دستخط نہ کیے اور معاہدہ محض زبانی بنیادوں پر قائم رہا۔
اپنی غیر مادی ساخت کی وجہ سے سی-ایف-اے قانونی اور فعالیت میں کم موثر ہے۔ اس میں ایک معاہدے کے بنیادی شرائط کم تر ہیں جو عموماً عالمی طور پر جنگ بندی کے معاہدوں میں موجود ہوتی ہیں۔ اس میں نقاط کو نافذ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ، غیر جانبدار مبصرین اور ثالثی کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی ہے کیا، اس عنصر کی تشریح بھی موجود نہیں ۔ کیا سرحد پار فائرنگ خلاف ورزی ہے یا ٹینکوں کا سرحد پار کر جانا؟ کیا دونوں طرح کی خلاف ورزیوں کو ایک ہی طرح سے دیکھا جائے گا؟ آرٹیلری کے لیے سرحد پر نظر رکھنے کے لیے غیر مقبوضہ چوٹیوں پر آپریشنل چوکی بنانے کو کیا سمجھا جائے گا چونکہ یہ کوئی تباہ کن یا نقصان دہ عمل تو نہیں؟ ۔ اس لیے ان شرائط کے نہ ہونے سے حادثاتی طور پر سرحدی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ اس ابہام کی وجہ سے پاکستان اور بھارت خلاف ورزیوں کے حوالے سے مختلف اعدادوشمار پیش کرتے ہیں ۔
2003ء میں سی-ایف-اے پر مبصرین کی طرف سے دستخط ہوتے وقت اس معاہدے کو تقویت نہ دی گئی چونکہ کارگل جنگ ، پاکستان کی کشمیریوں کی مدد اور جوہری تجربات کے تناظر میں وہ وقت دونوں ملکوں کے بیچ غیر یقینی سے دوچار تھا۔اس بات کا امکان تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ جلد ہی ناکام ہو جائے گاجیسے بہت سے دوسرے پاک-بھارت معاملات بھی ناکام ہو چکے تھے جس میں 2003ء میں شروع کیا گیا امن مذاکرات کا عمل بھی ہے جو 2007ء میں ناکام ہو گیا۔
لیکن اس کے باوجود سی-ایس-ایف دیرپا اور کامیاب ثابت ہوا۔ حقیقت میں پچھلی کئی دہائیوں میں پاک-بھارت تعاون کی یہ واحد کامیاب مثال ہے۔ سی-ایس-ایف معاہدے سے قبل سرحدی کشیدگی کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ 2002ء میں ان واقعات کی تعداد 5700 تھی جو جنگ بندی ہونے کے بعد 2000ء کی دہائی میں تقریباً صفر ہو گئی۔
بد قسمتی سے سی-ایس-ایف اپنی کامیابی میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے لیے غیر مرئی ہو گیا ۔ معاہدے کو کامیابی کے سالوں میں نہ تو میڈیا میں اور نہ حکومتی سطح پراسکو زیرِ بحث لایا گیا۔ اس نظر اندازی کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اور بھارت 2000ء کی دہائی کے دوران سی-ایس-ایف کی تجدید یا اس کو دوبارہ قابلِ عمل بنانے کی طرف نہ لوٹے، اس کے باوجود کہ اسی عرصہ کے دوران دونوں ملک دیگر معاملات پر بات چیت کر رہے تھے۔
معاہدے میں 2010ء کے آس پاس جب دراڑیں نمودار ہوئیں تو پاکستان اور بھارت نے ان کو سدھارنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ 2013ء میں ڈی-جی-ایم-اوز کو دوبارہ مسئلے کا حل نکالنے کی ذمہ داری دی گئی لیکن اس میٹنگ کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ تب سے یہ مشورے متواتر آتے رہے ہیں کہ (سی-ایس-ایف) معاہدے کو باقاعدہ بنایا جائے اور ڈی- جی-ایم-اوز کی ایک اور میٹنگ رکھی جائے۔ لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی چونکہ دونوں اطراف مذاکرات کے دوران اپنی اپنی پوزیشن کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
اگر دونوں حکومتیں اسے کشمیر معاملے سے الگ کر دیں اور اعلیٰ سطحیٰ پر سیاسی وسائل مہیا کر دیں تو آج بھی سی-ایس-ایف کو بچایا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس میں ایک بڑا سبق ہے۔ پاک-بھارت تعاون چونکہ کھبی کبھار ہی ہو پاتا ہے اس لیے (سی-ایس-ایف) تعاون کی کسی ہلکی سی کوشش کو بھی پروان چڑھانے اور حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر یہ معاملہ بھی پاکستان اور بھارت کے دیگرمسائل کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔