معجزہ خنزیر
بدروح سے متاثر آدمی کو نجات یا معجزہ خنزیر یا معجزہ سور یسوع (عیسیٰ) کے معجزات اور جھاڑ پھونک میں سے ایک ہے۔ اناجیل میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یسوع نے گراسینی یا گدرینی بدروحوں کے لشکر کو ایک آدمی یا دو آدمیوں کے بدن سے نکال باہر کیا تھا۔
انجیلی بیان
ترمیمبہ مطابق لوقا و مرقس
ترمیمانجیل کے مطابق یسوع اور اس کے شاگرد جھیل کے پار گراسینیوں کے ملک میں جا رہے تھے۔ جونہی گراسینیوں کے علاقہ میں جھیل کے دوسرے کنارے پر کشتی لگی تو "فی الفور ایک آدمی جس میں ناپاک روح تھی قبروں سے نکل کر اس سے ملا۔ وہ قبروں میں رہا کرتا تھا اور اب کوئی اسے زنجیروں سے بھی نہ باندھ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ بار بار بیڑیوں اور زنجیروں سے باندھا گیا تھا لیکن اس نے زنجیروں کو توڑا اور بیڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا اور کوئی اسے قابو میں نہ لا سکتا تھا۔ او روہ ہمیشہ رات دن قبروں اور پہاڑوں میں چلاتا اور اپنے تئیں پتھروں سے زخمی کرتا تھا۔ وہ یسوع کو دور سے دیکھ کر دوڑا اور اسے سجدہ کیا۔ اور بڑی آواز سے چلا کر کہا اے یسوع خدا تعالیٰ کے بیٹے، مجھے تجھ سے کیا کام؟ تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں مجھے عذاب میں نہ ڈال۔ کیونکہ وہ اس سے کہتا تھا اے ناپاک روح اس آدمی میں سے نکل آ۔ پھر یسوع نے اس سے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے اس سے کہا میرا نام لشکر ہے کیونکہ ہم بہت ہیں۔"[1]
بدروحوں نے آپ سے درخواست کی
"ہم کو ان سوروں میں بھیج دے تاکہ ہم ان میں داخل ہوں۔ پس اس نے ان کو اجازت دی۔ اور ناپاک روحیں نکل کر سوروں میں داخل ہوگئیں اور وہ غول جو کوئی دو ہزار کا تھا کڑاڑے پر سے جھپٹ کر جھیل میں جا پڑا اور جھیل میں ڈوب مرا۔ اور ان کے چرانے والوں نے بھاگ کر شہر اور دیہات میں خبر پہنچائی۔ پس لوگ یہ ماجرا دیکھنے کو نکل کر یسوع کے پاس آئے۔ اور جس میں بدروحیں یعنی بدروحوں کا لشکر تھا، اس کو بیٹھے اور کپڑے پہنے اور ہوش میں دیکھ کر ڈر گئے۔ اور دیکھنے والوں نے اس کا حال جس میں بدروحیں تھیں اور سوروں کا ماجرا ان سے بیان کیا۔ وہ اس کی منت کرنے لگے کہ ہماری سرحد سے چلا جا۔"[2]
یہ ایک اور طرح کی مخالفت تھی۔ وہ ایک انسان کی نسبت جو جانوروں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہا تھا۔ اپنے جانوروں کو زيادہ اہمیت دیتے تھے۔ جب یسوع ان لوگوں کے اس رویہ سے مغموم ہوکر کشتی میں سوار ہونے لگے تو شفا یافتہ شخص نے بھی آپ کے ساتھ جانے کی درخواست کی۔ لیکن آپ نے اس کی اجازت نہ دی۔ بلکہ فرمایا: "اپنے لوگوں کے پاس اپنے گھر جا اور ان کو خبر دے کہ خداوند نے تیرے لیے کیسے بڑے کام کیے اور تجھ پر رحم کیا۔ وہ گیا اور دکپلس میں اس بات کا چرچا کرنے لگا کہ یسوع نے اس کے لیے کیسے بڑے کام کیے اور سب لوگ تعجب کرتے تھے۔"[3]
لوقا کی انجیل میں یہی واقعہ مذکور ہے مگر وہ اسی کا خلاصہ اور زیادہ تفصیل سے درج ہے۔[4]
بہ مطابق متی
ترمیممتی کی انجیل میں مذکور ہے کہ جب یسوع جھیل کے دوسرے کنارے پر گدرینیوں کے ملک میں پہنچے تو دو آدمی جن میں بدروحیں تھیں قبروں سے نکل کر یسوع کو ملے۔ وہ ایسے تند مزاج تھے کہ کوئی اس راستہ سے گذر نہیں سکتا تھا۔ چلا کر کہا "اے خدا کے بیٹے ہمیں آپ سے کیا کام آپ اس لیے یہاں آئے ہیں کہ وقت سے پہلے ہمیں عذاب میں ڈالیں"۔ ان سے کچھ دور بہت سے سوّروں کا غول چر رہا تھا۔ پس بدروحوں نے یسوع کی منت کر کے کہا کہ اگر آپ ہم کو نکالتے ہیں تو ہمیں سوّروں کے غول میں بھیج دیں۔ سیدنا یسوع نے ان سے فرمایا کہ "جاؤ" تو وہ نکل کر سوّروں کے اندر چلی گئیں۔ اور فوراً وہ تمام سوّر پہاڑ کے نشیب میں دوڑے اور جھیل میں گر کر پانی میں ڈوب گئے۔ اور سارا شہر یسوع مسیح سے ملنے آیا اور آپ کو دیکھ کر منت کی کہ ان کی سرحدوں سے باہر تشریف لے جائیں۔[5]
تفسیر
ترمیمبدروحیں اور سوّر
ترمیمایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدروحیں انسانی بدن میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ کبھی کبھی ایک ہی آدمی میں ایک سے زیادہ بدروحیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں جو بدروح گرفتہ کی شخصیت پر قابو کرتی ہیں۔ اس شخص میں بدروحوں کا سمایا ہوا لشکر یہ جانتا تھا کہ قریب ہی دو ہزار سوروں کو غول چر رہا ہے۔ ان ناپاک جانوروں کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ جھیل اور گولان کی پہاڑیوں کے درمیان میں کے زرخيز نشینی علاقہ میں بت پرست رہا کرتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے نبی موسیٰ کی معرفت ہدایت کی تھی کہ بعض جانوروں کا گوشت کھانے سے گريز کیا جائے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان جانوروں کا گوشت صحتِ عامہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے کھانے سے پیٹ میں کیڑے (ٹیپ وارم) پڑنے اور ترخینا کی بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں کوئی بھی خدا پرست اس قسم کے جانوروں کو نہیں پالتا تھا۔[6]
ایک یا دو آدمی
ترمیممتی کی انجیل میں دو شخصیات مذکور ہیں جبکہ مرقس اور لوقا کی اناجیل میں صرف ایک شخص کا ذکر ہے۔ بزرگ کرسسٹم اور آگسٹین کے خیال کے مطابق ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت زیادہ توجہ کے لائق تھا۔ مرقس اور لوقا زیادہ تفصیل سے اس تاریخ کو رقم کرتے ہیں۔ اور صرف اسی شخص کا ذکر کرتے ہیں جس کی حالت دوسرے شخص کی حالت سے زیادہ ردی اور بھری ہوئی تھی تاکہ ان کا بیان زیادہ زندہ اور پُر اثر معلوم ہو۔[7]
گراسینیوں یا گدرینیوں
ترمیمپرانے ترجمہ میں "گریسنیوں" آیا ہے اور مرقس اور لوقا کی اناجیل میں اسے "گراسینیوں" کا ملک کہا ہے لیکن پرانے نسخوں سے ثابت ہوتا ہے کہ "گدرینیوں" کا لفظ متی میں اور "گراسینیوں" کا مرقس اور لوقا میں صحیح ہے۔ ایک "گراسینیوں" کے متعلق مسیحی عالم ٹامسن بیان کرتا ہے کہ "جب میں نے اس ملک کی سیر کی تو جھیل کے مشرقی کنارے پر اور قریباً اس کے وسط میں ایک گاؤں دیکھا جس کے ارد گرد بہت سی قبریں موجود تھیں۔ اور اس کے پاس ایک کڑا (قبر کی ڈاٹ) بھی واقع تھا۔ اس گاؤں کا نام گراسا ہے۔"[8] اور اس کا وقوع ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اس معجزہ کے بیان سے ثابت ہوتا ہے ایک شہر اور بھی اسی نام کا تھا۔ مگر وہ قریباً تیس میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔ پس یہ گاؤں گراسا نامی جو اب معلوم ہوا ہے وہی جگہ ہے جس سے "گراسینیوں"کا لفظ نکلا ہے۔[9] لیکن پھر یہ سوال برپا ہوتا ہے کہ گدرینیوں کا لفظ کس طرح پیدا ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شہر گدارا (موجودہ نام ام قیس) بھی تھا وہ اس جھیل سے جنوب مشرق کی طرف چند میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔[10] اور چونکہ یہ دستور تھا کہ بڑے شہر کے ارد گرد کے دیہات اس سے علاقہ رکھا کرتے تھے پس یہ قیاس کیا جا سکتا ہے اور یہ قیاس نادرست نہیں کہ اگر گراسا گدارا سے علاقہ رکھتا تھا اور اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ اس علاقہ کے باشندے کبھی گراسینی اور کبھی گدرینی کہلاتے ہوں گے۔[11]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ انجیل شریف بہ مطابق مرقس، باب 5 آیت 2 تا 9
- ↑ انجیل شریف بہ مطابق مرقس باب 5 آیت 12 تا 17
- ↑ انجیل شریف بہ مطابق مرقس باب 5 آیت 19 تا 20
- ↑ انجیل شریف بہ بمطابق لوقا 8 باب آیت 32 تا 39
- ↑ انجیل شریف بہ مطابق متی باب 8 آیت 28 تا 34
- ↑ سیرت المسیح ابن مریم، مصنف ایک شاگرد، مترجم وکلف اے۔ سنگھ
- ↑ W. R. G. Loader, "Son of David, Blindness, Possession, and Duality in Matthew," CBD44 (1982):579-85
- ↑ Highlights in the Life and Ministry of Jesus Christ: The Gerasene Demoniac (Mark 5:1-20). by Robert L. Deffinbaugh, Th.M. pg 67
- ↑ M. Eugene Boring, Mark: A Commentary (Presbyterian Publishing Corp, 2006) pages 148–149.
- ↑ Nolland, J. (2005). The Gospel of Matthew: A commentary on the Greek text. New International Greek Testament Commentary (374–375). Grand Rapids, MI; Carlisle: W.B. Eerdmans; Paternoster Press.
- ↑ Matthew Henry, Matthew Henry’s Commentary on the Whole Bible: Complete and Unabridged in One Volume (Peabody: Hendrickson, 1994), 1652.