ملکانہ
سالٹ رینج کے اندر پہاڑوں میں ’’ملکانہ‘‘ ایک خوبصورت مقام ہے جہاں پر کئی صدیوں سے تازہ شفاف پانی کا بڑا چشمہ ہے یہ چشمہ چٹان نما پتھروں سے نکلتا ہے اور اسی ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی وجہ سے یہاں پر ارد گرد مختلف پھلوں کے درخت ہیں جو ایک گھنے جنگل کی شکل اختیار کر گئے ہیں وادی کہون کے نیلا واہناور نڑمی ڈھن چشموں کے بعد ملکانہ کا یہ چشمہ بھی اپنی مثال آپ ہے اس کا راستہ بھی آسان ہے اورپکی سڑک سے چند قدم چل کر اس تک آسانی سے پہنچا جا سکتاہے۔ یہاں پر کوئلے اور نمک کی کانیں ہیں۔ تھوڑی سے توجہ سے یہ انتہائی خوبصورت تفریحی مقام کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ملکانہ یونین کونسل ڈلوال میں واقع ہے اور قصبہ بادشاہ پور تک پکی سڑک ہے اور پھر اس کے ساتھ پگڈنڈیاں ہیں جبکہ ملکانہ کی اپنی کوئی آبادی نہیں اکا دُکا گھر ہیں جو قریبی باغ والوں کی رہائش ہیں اور کچھ کوٹھریاں وغیرہ مائنز(کانیں) مالکان نے بنا رکھی ہیں ۔ ملکانہ کے قدرتی چشمہ سے علاقہ کے چھ دیہات ملوٹ، وڑالہ، چھوئی، ڈلوال، مگھال، دلیل پور کو پینے کا پانی ملتا ہے۔ اس علاقے میں لوکاٹ کے باغات ہیں وہ بھی اس چشمہ سے سیراب ہوتے ہیں۔[1]
ملکانہ مندر
ترمیمقلعہ کسک، قلعہ ملوٹ اور اس کے مندروں کے بارے میں تو بیشتر لوگ جانتے ہیں لیکن اس کے قریب واقع ملکانہ مندر تاریخ کی دھول میں اب بھی گم ہیں۔ شیو گنگا کے نام سے مشہور یہ مندر کلرکہار سے ڈلوال جانے والی سڑک پہ ملوٹ اور ڈلوال کے بیچ سڑک سے کچھ اندر واقع ہیں۔ اگر آپ لاہور یا گوجرانوالا سے آ رہے ہیں تو آپ جہلم، پنڈ دادن خان، چوآسیدن شاہ، ڈلوال اور تھوہا راجگان سے ہوتے ہوئے ملکانہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہی سڑک آپ کو آگے ملوٹ تک لے جائے گی۔
یہ مندر سڑک کے کنارے سے کچھ اندر درختوں سے گھری پرسکون جگہ پہ ایک
300 میٹر بلند پہاڑی پہ واقع ہے جسے تین اطراف سے ایک بل کھاتے چشمے نے گھیر رکھا ہے۔ اس خوبصورت مقام پہ تازہ و شفاف پانی کا بڑا چشمہ موجود ہے جو چٹان نما پتھروں سے نکلتا ہے اور اس کے ٹھنڈے میٹھے پانی کی وجہ سے یہاں پر ارد گرد مختلف اقسام درخت ہیں جو ایک گھنے جنگل کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
وادی کہون کے نیلا واہن اور نڑمی ڈھن چشموں کے بعد ملکانہ کا یہ چشمہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس علاقے میں لوکاٹ کے باغات بھی اسی چشمے سے سیراب ہوتے ہیں۔ یوں تو یہ چشمہ آج کل قدرے خشک ہے لیکن بارشوں کے بعد یہ پھر سے بہنے لگتا ہے جو اس جگہ کے حسن کو دوبالا کرنے کو کافی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ان مندروں کو بدھ مت کے پیروکاروں نے تعمیر کیا تھا جن کی ہنوں کے ہاتھوں تباہی کے بعد ہندوؤں نے انھیں استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک مندر مرد حضرات جبکہ دوسرا خواتین کے استعمال میں تھا۔ اسی طرح اشنان کے لیے مرد و خواتین کے حوض بھی الگ الگ تھے۔
ملکانہ ایک بڑا گاؤں ہوا کرتا تھا جہاں ہندوؤں کی کثیر تعداد آباد تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب وہ یہاں سے ہجرت کر گئے تو سہولیات کی کمی کے باعث مسلمانوں نے بھی یہ جگہ چھوڑ دی جس کے بعد یہ جگہ مکمل ویران ہو گئی۔ ملکانہ ہندو پوری دنیا سمیت بھارتی ریاست ہریانہ میں اب بھی موجود ہیں۔ فی الحال یہاں ہندوؤں کے چھوڑے اکا دکا گھر موجود ہیں جو مندر کے بالکل پاس ہیں۔
کشمیری طرزِ تعمیر کے حامل ان مندروں میں درگا دیوی کی ایک قدیم مورتی بھی موجود تھی مگر اب اس مورتی کے بارے کوئی معلومات موجود نہیں۔ تقسیم سے پہلے ان مندروں کی مرمت کی جاتی تھی مگر اب انھیں اپنے حال پہ چھوڑ دیا گیا۔ ادھر بچی کھچی کثر پاکستان میں بسنے والے خزانے کے متلاشی جنونیوں نے اس کی توڑ پھوڑ کرکہ پوری کر دی۔ نجانے آثارِ قدیمہ والوں کی نظر ان پہ کب پڑے گی۔۔۔۔؟؟؟
یوں تو ان مندروں کا طرزِ تعمیر باقیوں سے ذرا مختلف ہے لیکن چھوٹا مندر کٹاس راج کے مندروں سے مماثلت رکھتا ہے۔ دونوں مندروں میں مختلف رنگوں سے نقش و نگار بنائے گئے تھے مگر اب وہ مٹ چکے ہیں۔ بڑے مندر کی محراب اور مرکزی دروازے پر پتھروں کی مورتیاں، بیل بوٹے اور جانوروں کی شبیہیں بنی ہوئی تھیں ۔