منبر نبوی
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
منبرنبوی و فراقِ حضور ﷺ میں رونے والا کھجور کا تنا
فراقِ حضور ﷺ میں رونے والا کھجور کا تنا
رسول اللہ ﷺکی مسجدکی چھت کھجور کے تنوں پر تھی یعنی کھجور کے تنوں سے ستونوں کا کام لیا گیا تھا۔ نبی کریم ﷺخطبہ ارشاد فرماتے تو ایک کھجور کے تنے کے سہارے کھڑے ہوجاتے۔ یہ تنا آپ ﷺ کے مصلیٰ کی دائیں جانب (اس وقت کی مسجد) کی دیوار سے متصل تھا،کبھی کبھی خطبہ لمبا ہو جاتا تھا اس لیے ایک انصاری صحابیہ عورتؓ نے آپ ﷺکی سہولت کے لیے گزارش کی ”اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا ہم آپ ﷺکے لیے ایک منبر نہ بنا دیں؟“
رسول اللہ ﷺنے اس تجویز سے اتفاق فرمایا،توآپ ﷺکے لیے جھاؤ کے درخت سے تین سیڑھیوں والا منبر تیارکیا گیا۔ جب جمعۃ المبارک کا دن آیا تو آپ ﷺ تنے کی بجائے منبرکی طرف تشریف لے گئے۔ تو وہ تنا‘غم ِفراق میں بچے کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔
صحیح بخاری میں سیدنا جابربن عبد للہ ؓ سے روایت ہے کہ:”جب آپ ﷺمنبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔ نبی کریم ﷺمنبر سے اُتر ے اور اس تنے کو آغوش میں لیاتو وہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگا جسے چپ کرایا جا رہا ہو۔“
امام ابن خزیمہ ؒ نے سیدنا انس ؓکی روایت بیان کی ہے کہ ”وہ لکڑی کا تنا ایک مصیبت زدہ شخص کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
سنن دارمی میں سیدنا انس ؓ کی روایت بیان کی ہے کہ ”وہ تنا‘بیل کی طرح ڈکارنے لگا۔
منداحمد،سنن دارمی اورسنن ابن ماجہ میں سیدنا ابی بن کعب ؓکی حدیث ہے کہ ”جب رسول اللہ ﷺ اس تنے کے پاس سے گذر کر منبر کی طرف چلے تو تنا‘ اس زور سے رویا کی وہ پھٹ گیا اور دو حصے ہو گیا۔“
دارمی میں بریدہ کی روایت ہے کہ ”آپ ﷺ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا،اور(اسے چپ کراتے ہوئے)کہا،تم کو اسی جگہ گاڑ دوں جس جگہ تم تھے، پس اسی طرح (سبز شاداب ہو جاؤ)جیسے پہلے تھے،یا تم کو جنت میں بو دوں (یعنی مسجد میں دفن کر دوں تو تم جنت میں اگ جاؤ گے)تو تم جنت کی نہروں چشموں سے سیراب ہوگے،خوب اچھے پھلدار ہوجاؤگے،تمھیں اولیا ء اللہ (جنتی) کھائیں گے،اور ہمیشہ رہوگے،پھر آپ ﷺ نے اس کی طرف کان لگایا کہ وہ کیا کہتا ہے، آپ ﷺسے جب پوچھا گیا کہ اس نے کیا کہا تو آپ ﷺ نے جواب دیاکہ:”اس نے دارالفناء کے مقابلے میں دارالبقاء کو تر جیح دی“یعنی جنت میں اگنے کو ترجیح دی۔(وفاء الوفاء)
مصنف ابن عبد الرزاق میں ہے کہ: معمر نے اہل مدینہ سے نقل کیا ہے کہ اس کھجور کے تنے کو مسجد نبوی ہی میں دفن کر دیا گیا، چنانچہ جس مقام پر دفن کیا گیا ہے وہاں پر ایک ستوں کھڑا کر دیا ہے، جیسے ”استوانہ حنانہ“کہتے ہیں،جو ریاض جنتہ کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ مطب بن حطب کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اس تنے کے بارے میں حکم دیا کہ زمین کھود کر اسے دفن کر دیا جائے،چنانچہ منبر کے نیچے دفن کر دیا۔(وفاء الوفاء)
شرح ترمذی میں ہے کہ:تین قوی روایتوں سے اس تنہ کا دفن ہونا ثابت ہے۔(معارف السنن)
تاریخ منبرِ نبوی
منبر 8ہجری میں بنایا گیا،اس کی لکڑی جھاؤ کی اور تین سیڑھیاں تھیں،یہ مصلیٰ نبوی کے دائیں جانب تھا،اور اس کی لمبائی تین ہاتھ ایک بالشت تین انگلی تھی۔(عمدۃ القاری،زادالمعاد)
نبی کریم ﷺتیسری سیڑھی پرتشریف فرماتے تھے اور پاؤں مبارک دوسری سیڑھی پر رکھتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓکا جب زمانہ آیا تو حضرت ابوبکرؓ دوسری سیڑھی پر بیٹھتے اور پاؤں پہلی سیڑھی پر رکھتے تھے (ادباً آپ ﷺ کے مقام پر نہیں بیٹھتے تھے)حضرت عمر فاروق ؓ کا جب زمانہ آیا تو حضرت عمر ؓ پہلی سیڑھی پر بیٹھتے تھے اور پاؤں زمین پر رکھتے،اور خطبہ کے وقت پہلی سیڑھی پر کھڑے ہوتے تھے(دوسری سیڑھی کو ادباًچھوڑ دیتے تھے)۔
پھر حضرت عثمان غنی ؓ کا زمانہ آیا تو کچھ عرصہ حضرت عثمان ؓ حضرت عمر ؓ کی طرح پہلی سیڑھی پر بیٹھتے اور خطبہ کے وقت اسی سیڑھی پر کھڑے ہوتے رہے،پھر انھوں نے منبر کے نیچے ایک سیڑھی کا اضافہ کیا اور اسی پر بیٹھتے تھے اور تینوں سیڑھیوں کو ادباً چھوڑ دیتے تھے۔(کشف الغمہ)
جب حضرت امیر معاویہ ؓ اپنے زمانہ میں حج کو آئے تو انھوں نے منبر کی سیڑھیوں میں اضافہ کر دیا۔ لیکن اصل منبر نبوی کو اضافہ کے اوپر ہی رکھا گیا اس طرح بیٹھنے والی جگہ سمیت منبر کی نو سیڑھیاں بن گئیں۔
خلفاء ساتویں سیڑھی پر بیٹھتے تھے جو اصل منبر نبوی کی پہلی سیڑھی تھی۔ (جہاں سیدنا عمر ؓ بیٹھتے تھے)پھر منبر اسی حالت میں رہا حتیٰ کہ654ھ(1256ء)میں مسجد نبوی میں آگ لگنے کے واقعہ میں منبر جل گیا اور امت اس کی برکات سے محروم ہو گئی۔
انتباہ:آپ ﷺجس منبر پر خطبہ دیا کرتے تھے،جس کا ذکر حدیث پاک میں ہے،موجودہ منبر وہ منبر نہیں جس کی زیارت کی جاتی ہے،لہٰذاجو لوگ اس منبر کو بوسہ لینے اور چھو کر برکت حاصل کرتے ہیں،اس کی اہمیت نہیں۔
اس کی جگہ یمن کے بادشاہ ملک مظفر کا بنا منبر رکھا گیا۔ منبر کی تبدیلی کئی دفعہ ہوئی۔ آخری منبر سلطان مراد ثالث عثمانی 998ھ میں بطور تحفہ بھیجا جو انتہائی خوبصورت اور کاریگری کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ منبر اب بھی مسجد نبوی میں موجود ہے۔(تاریخ مسجد نبوی شریف،
محمد الیاس عبد الغنی)
منبرکے بارے میں نبی کریم ﷺ کے فرمودات
اس کے بلند مرتبہ کو واضح کرتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میرے گھر اور منبر کا درمیانی ٹکڑا جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور (قیامت کے دن)میرا منبر حوض (کوثر) پر ہوگا۔(بخاری، مسلم)
منبر کے عظیم المرتبت ہونے پر یہ چیز دلالت کر تی ہے کہ جو شخص اس کے پاس کھڑا ہو کر جھوٹ بولے گا اسے سخت ترین عذاب ہوگا۔ رسول اللہ ﷺنے منبر کے پاس قسم اُٹھانے کو جائز رکھا ہے مگر اس مقدس جگہ جھوٹ بولنے پر سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔
سیدنا جابر ؓ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ: ”جو شخص میرے اس منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائے گا،خواہ وہ قسم ایک تازہ مسواک ہی کے بارے میں ہو،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں بنائے گا (یافرمایا)اس کے لیے جہنم میں جانا لازم ہو جائے گا۔“(سنن ابو داود))