مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی بن محمد بن ابراہیم بن شیر محمد بن کریم بخش قوم جٹ لدھیانوی جائے پیدائش ذلف گڑھ (جھنگیاں)  ماچھی واڑہ ضلع لدھیانہ.

عبداللہ لدھیانوی
معلومات شخصیت
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  واعظ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آبا و اجداد

ترمیم

آبا و اجداد میں سے ایک بزرگ زلفونامی موضع ہادیوال سے یہاں آکر آباد ہوئے ان کے نام کی نسبت کی وجہ سے زلف گڑھ نام پڑا زلف گڑھ چکنمبر145 تحصیل سمرالہ ضلع لودھیانہ ہے اسی گاؤں کے قریب تقریبا ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موضع لکھوال کلاں تھاجو مولانا کے ننھیال کا گاؤں تھا.

ہجرت پاکستان

ترمیم

تقسیم پاکستان کے وقت چار سال کی عمر تھی ہجرت اور احوال ہجرت پوری یاد بے سروسامانی کے ساتھ آباؤاجداد کے ہمراہ انڈیاسے پاکستان ہجرت کی . پاکستان کے مطلب لاالہ اللہ اوردو قومی نظریے کی بنیاد پر باوجود کی صعوبتوں اور مشقتوں کہ کبھی چھکڑوں پر کبھی مال گاڑی کے ڈبوں کی چھت پر اور اکثر پیدل چلتے ہوئے پاکستان کے شہر لاہور میں مہاجرین کے کیمپوں میں پہنچے.

ہجرت کے بعد ایک اور ہجرت

ترمیم

کچھ عرصہ لاہور میں مہاجرین کے کیمپوں میں گذرا وہاں سے ہجرت کی چیچہ وطنی کے چک نمبر 33/11Lمیں دو دن ٹھہرے یہاں سے چک نمبر 160/EB میں جو تحصیل بورے والا کاایک گاؤں ہے قیام کیا ننیال اور بقیہ گاؤں والے چک نمبر 166/EB بورے والا کے ہی گاؤں میں آباد ہو گئے .

تعلیم کا سلسلہ

ترمیم

تقسیم پاکستان کے ایک سال بعد گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخل کرائے گئے۔ پرائمری اس دور میں چار جماعت کا ہوا کرتا تھا۔پرائمری کے اساتذہ میں سے سردار بخش متانی, ماسٹر محمد شفیع تھے اور بعد میں ماسٹر عبد الرزاق حصاروی, ماسٹر محمد امین, عبد الحمید, سید عابد علی شاہ صاحب تھے۔ مڈل کے لیے چک نمبر 142/EBکے مڈل اسکول میں داخلہ لیا جہاں گاؤں کے کچھ اور لڑکے بھی پڑھتے تھے گاؤں سے 6 میل کا فاصلہ پرجو تقریبا 9 کلومیٹر کا بنتا ہے مشکل تھا روزانہ کے لیے پیدل چل کرجانا بھی مشکل تھا لہذا مبلغ ڈیڑھ سوروپے کا گھوڑا خریدا گیا پانچ بچوں کے ہمراہ اسکول کے لیے صبح جاتے شام واپسی ہوتی کیونکہ کیونکہ اس دورکے اساتذہ چھٹی کے بعد بھی بغیر کسی معاوضے کے2/3 گھنٹے مزید بڑھاتے تھے تیاری کرواتے تھے آٹھویں جماعت (مڈل) بورے والا کے ہائی اسکول میں مکمل کیاآٹھویں جماعت کے استاد شاہ نوازصاحب اورحافظ محمد علی نویں جماعت کے استاد چوہدری محمد شفیع صاحب تھے دسویں جماعت کے سید عابد علی شاہ صاحب تھے۔

والد گرامی محمد ابراہیم سخت محنت اور مشقت سے کاشتکاری کرتے تھے

دینی تعلیم

ترمیم

تحصیل دین کی خاطر میٹرک کے بعد بورے والا سے مامونکانجن (فیصل آباد) میں جامعہ احیاء العلوم میں پہنچے میٹرک کا سٹوڈنٹ جٹ برادری سے تعلق رکھنے والامدرسہ میں کیسے پہنچاشایدخدائ فیصلہ کیساتھ ساتھ کسی بزرگ کی دعا کا نتیجہ نظرآتا ہے۔

ماموں کانجن میں جامعہ احیاءالعلوم میں داخل ہوئے وہاں ایک مرد قلندر مرد مجاہد حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی نظر ہی کچھ یوں پڑی دل وبدل دیے

نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

جٹ برادری زمیندار کا لڑکا دین پڑھنے مدرسہ میں آیا یہ لوگوں کے لیے ایک عجوبہ تھا قریبی دیہات کے لوگ ملنے آتے تھے کیونکہ آج تک انھوں یہ دیکھااورسناتھاکہ مدرسہ میں تو صرف یتیم, مسکین ,غریب ,نادار بچے پڑھتے ہیں اوربس. جٹ برادری زمیندار سے تعلق رکھنے والاپڑھالکھابچہ کیسے مدرسہ میں داخل ہوگیاکیونکہ اس وقت میٹرک بہت بڑی تعلیم سمجھی جاتی تھی اس وقت کے اساتذہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباءکرام کی اخلاقی تربیت کاخاص خیال رکھتے تھے جامعہ احیاءالعلوم ماموں کانجن کے مہتمم حافظ حسام الدین رحمہ اللہ تھے بڑے اساتذہ میں حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ ہوشیارپوری (والد گرامی حضرت مولانا قاری محمد ادریس ہوشیارپوری مہتمم جامعہ رحیمیہ ملتان ومؤلف خطبات حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ) اورشہید ختم نبوت حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تھے۔حضرت مولانا محمد شفیع صاحب بعد میں کراچی تشریف لے گئے اوردارالعلوم کے مدرس بنے کراچی ہی میں انتقال فرمایااور حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ بعد میں بین الاقوامی عالم دین, صاحب قلم ,عقیدہ ختم نبوت,و ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ, اور کئی کتب کے مصنف (آپ کے مسائل اورانکاحل,اختلاف امت اورصراط مستقیم,مرزائیت وکادیانیت اور گوہرشاہیت پرکافی لٹریچر)جن کو کراچی میں شہید کردیاگیا. حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ سے کنزالدقائق, کافیہ, ارشادالصرف, جیسی کتب پڑھیں .احیاء العلوم مامونکانجن سے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ بھی کراچی تشریف لے گئے ادھرماموں کانجن سے مولانا محمد عبد اللہ صاحب لدھیانوی بھی ماموں کانجن سے چنیوٹ چلے گئے وہاں پر فاتح ربوہ حضرت مولانا منظور احمد صاحب چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں پہنچے حضرت چنیوٹی رحمہ اللہ نے مولانا عبد اللہ لدھیانوی کو اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنا لیا مولانا چنیوٹی ہی تکمیل دین کا سبب بنے کہ مولانا محمد عبد اللہ صاحب لدھیانوی کو جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی جہاں تحریک ختم نبوت1974ء کے قائد اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے پاس پہنچادیا. حضرت شیخ الاسلام سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ , حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ , مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ اللہ , مولانا مصباح اللہ شاہ صاحب ہزاروی, مولانا فضل محمد سواتی رحمہ اللہ, جیسے اساطین علم ودانش, اخلاص و تقویٰ کے پیکر, زہدوورع سے مرقع اکابرین سے شرف زانو تلمذ اور علم حاصل کرنے کاموقع ملاجنہوں نے اپنے تلامذہ کو صرف سیراب ہی نہیں کیابلکہ ساقی بناکر امت مسلمہ کی وحدت اور دنیا و آخرت سدھارنے کاملکہ بھی عطافرمادیا.1966ء میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے فارغ التحصیل ہوئے.

27 جنوری 1967ء میں سلسلہ ازدواجی زندگی سے منسلک ہوئے اللہ تعالی نے صاحب اولاد بنایا اٹھ(8) اولادیں ہوئی جن میں سے چھ (6) حیات ہیں 3 بیٹے (محمدعبیداللہ لدھیانوی, محمدثناءاللہ دیول ایڈووکیٹ, مولانامحمدسعداللہ لدھیانوی )اور 3 بیٹیاں

شادی کے بعد مرکزی دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میں مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھری صاحب رحمہ اللہ مولانا محمد شریف جالندھری رحمہ اللہ نے مرکزی دفتر میں بطور مبلغ منتخب کیا اس وقت مبلغین میں وہ تمام بزرگ مبلغین ہوتے تھے جو حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمہ اللہ کے معتمد تھے۔ 1969ء میں شیخ الاسلام علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے جامعہ کی خدمت کے لیے کراچی بلوالیا اور بحیثیت مدرس کے جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں مدرس رہے اور بحثیت خطیب و امام جامع مسجد خاموش کالونی کراچی میں رہے. بالآخر شیخ الاسلام علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے حضرت مولانا لال حسین اختر رحمہ اللہ کو کراچی بلوا کر مولانا عبد اللہ کو مولانا لال حسین اختر رحمہ اللہ کے سپرد کر دیا دفتر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میں ایک مرتبہ پھرتشریف آوری ھوئی

. جب حضرت مولانا لال حسین اختر رحمہ اللہ کا وصال ہوا اور ان کی وصیت تھی کہ تدفین تحریک ریشمی رومال کے مرکزدین پور شریف کے قبرستان میں اکابرین کیساتھ حضرت حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کے پہلو میں میں ہو ان کی یہ وصیت دین پور شریف سنانے کے لیے وہاں حضرت میاں عبد الہادی رحمہ اللہ سے اجازت نامہ لینے کے لیے مولانا محمد عبد اللہ صاحب کو بھیجاگیا حضرت میاں عبد الہادی رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جگہ تو میں نے اپنے لیے رکھی تھی مگر جوان دور سے آ رہا ہے اور بڑی شان سے آ رہا ہے آنے دو

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر ہیں روحانی تعلق خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب رحمہ اللہ سے تھا ٹوبہ ٹیک سنگھ کی غلہ منڈی کی جامع مسجد بلال میں بحثیت خطیب کے 1973 مقرر ہوئے انتظامی امور کے حوالہ سے کار سرکار میں پورا سکہ چلتا ہے اپنی خطابت اور حق گوئی کی بنا پر پورے ٹوبہ میں لوہا ماناجاتاہے سیاسی طور پر کئی مرتبہ فریق مخالف نے ٹوبہ سے نکلوانے کی کئی کوشش اور سازشیں رچیں اور انکومنہ کی کھانی پڑیں.

اے ظالم آ ہنر آزمائیں

تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

مذہبی طور پر تمام مسالک اور تمام مکاتب فکر میں ایک قاضی اور فیصل کی حیثیت رکھتے ہیں

اپنے وقت میں سرکاری اور مذہبی حلقہ میں دبنگ مولوی کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ اور اب یہ سیٹ مولانا کے صاحبزادے حضرت مولانا محمدسعداللہ صاحب لدھیانوی کے سپردہے مولانا سعداللہ لدھیانوی  پاکستان علما کونسل کے صوبائ ڈپٹی جنرل سیکرٹری ہیں اور جامع مسجد بلال غلہ منڈی کے نائب خطیب بھی ہیں مولانا سعداللہ لدھیانوی بارہا رابطہ عالم اسلامی کے اجلاسوں میں متعدد ممالک میں شرکت کرتے ہیں اور علاقہ بھر میں اپنے والد کی طرح مسلک کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ضلعی انتظامیہ میں مکمل اثر و رسوخ ہے اور ضلعی امن کمیٹی کے ارکان ہیں 2019 رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں  حرم مکہ رابطہ عالم اسلامی کی میزبانی ھونے والی کانفرنس ( امن ، سلامتی،  اعتدال قرآن و سنت  روشنی میں ) شرکت کی اور وہاں جو معاہدہ ھوا جسے میثاق مکہ کا نام دیا گیا اس پر دستخط بھی ثبت ہیں اور خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ اور امام حرم مکی شیخ عبد الرحمن سدیس کی خصوصی دعوت پر حرمین کا سفر بھی کیا ہے

مولانا محمد عبد اللہ صاحب لدھیانوی پورے ضلع میں فردواحدایک جماعت اور کارواں کی حیثیت اپنی ذات میں رکھتے ہیں۔ مزاج ہنس مکھ احراری طبیعت اور ہر محفل کے شاہ سوار گفتگو کا ملکہ دلائل پرعبور .اور حکمت سے ہی ہمیشہ مخالفوں کے دل بھی جیت لیتے ہیں محفل میں کسی اور کو بولنے کا موقع ہی فراہم نہیں ہوتا مولانا کی قوت گویائی اور حکمت عملی کی وجہ سے وزراء کچھ جج صاحبان اور وکلا اورتمام سیاسی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی, مسلم لیگ نون ,مسلم لیگ ق, تحریک انصاف کے تمام ایم این اے اور ایم پی اے جیسی شخصیات الیکشن سے پہلے ہمیشہ اپنی تائید کے لیے لیے اور بعد میں دعاؤں کے لیے حاضرخدمت اکثر ہوا کرتے ہیں جس پارٹی نے بھی کبھی مذہبی حوالے سے کچھ خرابا بھی کیا اسے واضح طور پر کھری کھری سنا دیتے ہیں اور ان کی سپورٹ کی وجہ سے عوام الناس کو بھی آگاہ کرتے ہیں اور یہ پیغام ان کے ایم این اے ایم پی اے تک کو فرماتے ہیں کہ اپنے بڑوں کو یہ پیغام پہنچاؤ کہ اسلام, ختم نبوت ,ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے غداری مت کریں اور اپنی آخرت کو برباد مت کریں

تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم, تحریک ختم نبوت1974ء, تحریک ختم نبوت 1984ء, اور دیگر تمام تحریکیں جو ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اٹھیں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تمام تحریکوں کا مرکز غلہ منڈی جامع مسجد بلال ہی ہواکرتا ہے اور مولانا ان تحاریکوں کے سرکردہ رہے صعوبتیں ,مشقتیں, ہتھکڑیاں, جیلیں, بھی خوش دلی اورخوش اسلوبی سے قبول کیں مگر ناموس رسالت,ختم نبوت اور اسلام کے خلاف کبھی کوئی نازیبا حرکت برداشت نہیں کی

ملتان دفتر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میں بحثیت لائبریرین بھی رہے پوری دنیا میں واحد مولانا محمد عبد اللہ صاحب لدھیانوی ہی اس وقت موجود ہیں جنھوں نے مرزا غلام احمد قادیانی (26مئ1908) کی منکوحہ محمدی بیگم زوجہ سلطان احمد(1948ء) کی زیارت  اپنے استاد محترم فاتح ربوہ حضرت مولانا منظور احمد صاحب چنیوٹی کیساتھ کی مولانا چنیوٹی رحمہ اللہ تو اب رہے نہیں فقط محمدی بیگم کی زیارت کرنے والے مولانا محمد عبد اللہ صاحب لدھیانوی اس وقت دنیا میں موجود ہیں۔

والدین نے نام تو اسرائیل تجویزکیابمعنی عبد اللہ کے ہیں بعد ازاں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے مولانا کا نام محمدعبداللہ منتخب فرمادیا.

سبحان اللہ جن کی تشکیل مولانا محمد یوسف بنوری, مولانا محمد یوسف لدھیانوی, اور مولانا خواجہ خان محمد, مولانا محمد علی جالندھری, مولانا تاج محمود صاحب فیصل آبادی, پر رحھم اللہ اجمعین فرمادیں ان اکابرین کے تشکیل پر 1973 سے اب تک غلہ منڈی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قیام پزیر ہیں

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کیا کیا مسائل ، سیاسی اور مذہبی حلقہ میں کس سے کتنانقصان پہنچا مولاناکی زبانی ہی سناجاسکتاہے.

مگر باوجود اس کے ہمیشہ سیاسی مخالفین اور مذہبی مخالفین کی مخالفت کا مخالف سے جواب نہیں دیتے بلکہ مخالفت کا جواب خوش اسلوبی سے اور مہربانی اور اطمینان قلب سے دلائل کے ساتھ دیا کرتے ہیں مخالف کی مخالفت باغی کی بغاوت معلوم ہونے کے باوجود اسے کبھی مطعون نہیں کرتے ایسے لوگوں سے ایسے رویے سے پیش آتے ہیں کہ احساس تک نہیں ہونے دیتے.

جتنا مولانا کا سیاسی اور  سرکاری میدان میں اثر ورسوخ ہے اگر مولاناذاتی مفادچاہتے تو ارب پتی ہوتے لیکن کبھی مولانا نے کسی غریب کے بھلے کی خاطر بیوروکریٹ سے اپنے مقصد یا اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا اور آج تک مولاناکاٹوبہ میں کوئی ذاتی مکان یاکاروبار نہیں سوائے مسجدکے رہائشی مکان کے.جہاں آج بھی اپنے بچوں سمیت رہائش پزیر ہیں۔ جس دورمیں میٹرک کیاتھااگراسوقت چاہتے کم از کم ماسٹر/ٹیچرتوضرورلگتے مگر اللہ نے دین کا کام جو لیناتھا وہ لیا اسی دین کی بناپرہی تو نام اور کام زندہ پائیندہ ہے اور ان شاء اللہ بعد میں بھی اللہ تعالیٰ زندہ و جاوید رکھے گا. اللہ تعالیٰ ان اکابرین کا صحت وعافیت والاسایہ تادیرہمارے سروں پر قائم رکھے آمین ثم آمین.

واللہ اعلم با الصواب.

' {{{مضمون کا متن}}}

حوالہ جات

ترمیم
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔