مولد غریب
نور محمدی، فضائل درود، ذکر مولد اور سفر معراج پر ایک تحقیقی و علمی تصنیف
معلومات
ترمیمشاہ اکبر داناپوری نے مولد غریب ۱۲۹۲ھ میں قلمبند کیا، پوری کتاب قدیم طرز پر ہے، عبارت مقفیٰ اور مسجع ہے، ہم آہنگ الفاظ سے سجی ہوئی پُر تکلف تحریر اپنا الگ رنگ پیدا کر رہی ہے، اس کتاب میں مناقبِ صحابۂ کرام، مناقبِ اہلِ بیت، آدابِ سماع ذکر مولد، فضائلِ درود، نورِ محمدی، انتقالاتِ نور محمدی، تذکرہ خواجہ عبدالمطلب، تذکرہ خواجہ عبداللہ، ولادتِ باسعادت، بیانِ رضاعت اور سفرمعراج کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، اس کتاب میں حضرت اکبر نے ایک نیا طرز اختیار کیا ہے اس میں کسی بھی مضمون کو شروع کرنے سے قبل ’’روایت‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، جیسے
’’روایت جب پیدا ہوئے حضرت آدم کنیت ان کی ابو محمد رکھی گئی‘‘[1]
حضرت اکبر نے پوری کتاب مستند حوالوں اور دلیل سے آباد رکھی ہے، جگہ جگہ صوفیا کے بہترین عربی اور فارسی اشعار و مضامین نقل کئے گئے ہیں تاکہ نظم و نثر کا لطف مزید دوبالاہوجائے جیسے جلال الدین رومی، عبدالرحمٰن جامی، شیخ سعدی، حافظ شیرازی، مرزا عبدالقادر بیدل، علی حزیں لاہیجی، اوحدی مراغہ ای، امیر خسرو، بابا فغانی، شمس مغربی، ابوالفیض فیضی، مرزا مظہر جانِ جاناں اور شاہ نیاز احمد بریلوی اور اردو شعرا میں امجد علی اصغر اکبرآبادی، کفایت علی کافی مرادآبادی اور امیر مینائی وغیرہ کے اشعار نقل کئے گئے ہیں۔[2]
یہ رسالہ نظم و نثر کا مرقع ہے، اس میں حضرت اکبر اور دوسرے شعرا کی ایک درجن نعت ﷺ، مسدس، تضمین، قطعہ، رباعی، نظم اور بیت شامل ہے جو کتاب کا لطف مزید دوبالاکر رہی ہے، شروع میں دو تقریظ ہے پہلی تقریظ شاہ امین احمد فردوسی ثبات بہاری کی اور دوسری منشی مولیٰ بخش آزاد اکبرآبادی کی ہے، اسی طرح دو تاثر بھی شامل ہے، پہلا تاثر حضرت اکبرؔ کے صاحبزادے شاہ محسن داناپوری کا ایک دیباچہ ہے جو حمد باری تعالیٰ پر مشتمل ہے اور دوسرا شاہ سیف اللہ ابوالعُلائی کا ہے اور آخر میں ۱۳؍ قطعاتِ تاریخ شامل ہے۔[3]
کیفیت
ترمیممولدغریب چھ فصل پر مشتمل ہے، پہلی فصل میں صحابۂ کرام اور اہلِ بیتِ اطہار کے مناقب شامل ہیں، دوسری فصل میں آدابِ سماع ذکر مولد اور فضائلِ درود، تیسری فصل میں نورِ محمدی اور اس کا منتقل ہونا، چوتھی فصل میں خواجہ عبدالمطلب اور خواجہ عبداللہ کا تذکرہ، پانچویں فصل میں آپ ﷺ کی ولادت اور رضاعت کا بیان ہے اور چٹھی فصل میں معراج کا سفر شامل کیا گیا ہے، یہ کتاب اپنے تحقیق و استناد کے اعتبار سے انتہائی مفید اور لائقِ قدر ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ کتاب امام طبری کی تاریخ طبری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی مدارج النبوۃ کی تلخیص ہے، جگہ جگہ ان دونوں تصنیفات کا حوالہ نقل ہے اور نیچے اس کی شرح موجود ہے۔[4]
حضرت اکبر نے ۱۲۹۲ھ میں مولدِ غریب کے عنوان سے یہ رسالہ تصنیف کیا، جس کے دو نام اور ملتے ہیں جیسے دعویٔ بخشش اور وسیلۂ مغفرت، دعویٔ بخشش اور مولدِ غریب کا تاریخی عدد بھی ۱۲۹۲ھ نکلتا ہے، اس کی اشاعت ۱۰؍ برس بعد ۱۳۰۲ھ میں شیخ خدا بخش نے مطبع ابوالعُلائی آگرہ سے ۱۰۶؍ صفحات پر شائع کیا جس کی مقبولیت خوب ہوئی، اس کی اشاعت ثانیہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ سے ہوئی ہے۔[5]
حوالہ
ترمیم- ↑ ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ مولد غریب۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۱۶
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|year=
(معاونت) - ↑ ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ مولد غریب۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۱۷
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|year=
(معاونت) - ↑ ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ مولد غریب۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۱۷
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|year=
(معاونت) - ↑ ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ مولد غریب۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۱۸
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|year=
(معاونت) - ↑ ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ مولد غریب۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۲۰
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|year=
(معاونت)