حضرت شاہ محسن داناپوری ( ولادت 1881ء ۔ وفات 1945ء ) خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے سجادہ نشیں اور مشہور صوفی شاعر حضرت شاہ اکبر داناپوری کے صاحبزادے ہیں۔ [1]

شاہ محسن داناپوری کی عکسی تصویر جسے ان کے مرید شمس الدین شبن محسنی نے آگرہ میں لی تھی۔

پیدائش و تعلیم و تربیت

ترمیم

شاہ محسن داناپوری کی پیدائش اپنی نانیہال گولکھ پور ضلع پٹنہ میں 10 جمادی الثانی بروز سوموار 1298ھ موافق 9 مئ 1881ء کو ہوئی، آپ کا نام آپ کے جد امجد قطب العصر مخدوم سجاد پاک نے ایک گھنٹہ مراقبہ کے بعد محمد محسن رکھا اور تاریخی نام خورشید حسنین ہے، آپ کافی لحیم شحیم اور قوی الجثہ تھے۔ [2] شروع ہی سے اپنے والد کی صحبت اختیار کی جب تھوڑا بڑے ہوئے تو مدرسہ احیاوالعلوم الہ آباد کا رخ کیا اور وہیں سے فارغ ہوئے، چنانچہ خانقاہی ماحول علم و ادب کی فضا اور بزرگوں کی صحبت نے آپ کے علم کو مزید چمکا دیا۔[3]

حسب و نسب

ترمیم

شاہ محسن داناپوری کے والد حضرت شاہ اکبر داناپوری برصغیر کے نامور صوفی، تصانیف کثیرہ کے مصنف، مشہور عالم دین اور صوفی شاعر گذرے ہیں،آپ کے جد اعلیٰ فاتح منیر امام محمد تاج فقیہ 576ھ میں مکہ سے منیر تشریف لاے اور اپنی اولاد کو بساکر خود مکہ لوٹ گئے، بہار میں اسلام کی شمع شاہ محسن داناپوری کے اجداد عظام سے ہی پھیلی، ہندوستان کی مشہور ولیہ مخدومہ بی بی کمال، آپ کی اپنی دادا ہیں، شاہ محسن داناپوری کا خاندان علم و عمل اور زہد و تقوی میں بڑا اونچا مقام رکھتا ہے آپ کے جد امجد مخدوم سجاد پاک اپنے عہد کے مشہور بزرگ گذرے ہیں۔[4]

بیعت و خلافت

ترمیم

شاہ محسن داناپوری کو اپنے والد حضرت شاہ اکبر داناپوری سے سلسلہ ابوالعلائیہ میں بیعت حاصل تھا، آپ روز اول ہی اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے، اس کے بعد آپ تصوف کے وہ رموز بیان کرتے تھے کہ سننے والا متحیر ہوجاتا تھا، خواجہ بہاوالدین نقشبند اور حضرت سیدنا امیر ابوالعلا سے آپ کو بے پناہ عقیدت تھی، 16 شعبان المعظم 1327ھ کو آپ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے دوسرے سجادہ نشین منتخب ہوئے اور 37 برس تک بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ [5]

خدمات

ترمیم

شاہ محسن داناپوری فقر و تصوف کے ساتھ ملک کی سالمیت اور استحکام اور قومی فلاح و صلاح کے لیے بھی پیش پیش رہا کرتے تھے، آپ ملی اور سماجی تحریک سے کافی شغف رکھتے تھے، 1925ء میں مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی اور سر علی امامکی قیادت میں انجمن حفاظت المسلمین کا سہ روزہ جلسہ پٹنہ میں منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے اکابر سیاسی رہنما شریک اجلاس ہوئے تھے اس جلسے کی پہلے دن کی صدارت باتفاق آرا شاہ محسن داناپوری نے کی تھی اس دوران آپ نے اپنی انقلابی شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کرتے رہے مگر پھر کچھ ہی سال بعد دنیاوی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کر لیا تھا۔[3]

سیر و سیاحت

ترمیم

شاہ محسن داناپوری سیر و سیاحت کے بڑے شوقین تھے انھوں نے ایشیا کے علاوہ سعودی عرب تک کا سیر کیا ہے، بنگال سے کشمیر تک اور لاہور سے ملتان تک شاہ محسن داناپوری کے معتقد بھرے ہوئے تھے، ناظم آباد کراچی میں آپ کے مرید و خلیفہ مولانا عبد الغنی شاہ کی خانقاہ آپ سے آباد تھی، 1924ء میں آپ اپنے مرید و خلیفہ حاجی بابو خاں محسنی کے ہمراہ سفر حج سے بھی مشرف ہوئے۔

آپ کے سیکڑوں خلفا پٹنہ، جہان آباد، گیا، کشن گنج، الہ آباد، آگرہ، رانچی، حیدرآباد، اجمیر، بیکانیر، کراچی، لاہور، راول پنڈی، ڈھاکہ اور چٹا گاؤں وغیرہ میں پاے جاتے تھے، مشہور ادیب و شاعر صبا اکبرآبادی آپ کے ہی مرید ہیں۔ [5]

شعر و شاعری

ترمیم

آپ فطری شاعر تھے، آپ کے شعر میں تصوف کی آمیزش اور روحانی جلوہ گری نمایاں تھی، اپنے والد شاہ اکبر داناپوری ہی سے اصلاح سخن لیتے رہے ان کی شاعری میں جہاں متعدد شعرا کا رنگ و بو پایا جاتا ہے تو وہیں صوفیانہ شاعری کا اثر بھی نمایاں ہوتا ہے، آپ نے1927ء میں اخوان الصفا کی بنیاد ڈالی جس میں ہندوستان کی مایہ ناز ہستیاں شریک مشاعرہ ہوا کرتی تھیں، 1919ء میں درگاہ پٹنہ میں سہ روزہ کل ہند تاریخی مشاعرہ ہوا جس میں احسن مارہروی، سائل دہلوی، نوح ناروی اور حامد عظیم آبادی شریک محفل تھے لہذا ایک شب کی صدارت شاہ محسن داناپوری نے کی تھی آپ نے جو غزل پڑھی تھی اس کا مطلع یہ ہے۔

قیس رخصت ہوا دنیا سے تو فرہاد آیا

ایک ناشاد گیا دوسرا ناشاد آیا

شاہ محسن داناپوری شاعر مشرق علامہ قبال سے بے حد متاثر تھے ان کی غزل پر مخمس بھی کہا ہے، آپ کی شاعری کا مکمل گلدستہ کلیات محسن میں موجود ہے۔ نوح ناروی، سائل دہلوی، سیماب اکبرآبادی، مبارک عظیم آبادی آپ کے خاص احباب میں شامل تھے۔

آپ کے تلامذہ کی تعداد بھی کثرت سے ہوئی ان میں وفا اکبرآبادی، نظر الہ آبادی، آسی گیاوی، مظفر کاکوی، روح کاکوی زیادہ مشہور ہوئے،

شاہ محسن داناپوری کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں

مرنے کی تھی سبیل جئے جارہاہوں میں

ساقی پلارہاہے اور پئے جارہاہوں میں


ساقی کو دل میں یاد کیے جارہاہوں میں

کعبے میں بھی شراب پئے جارہاہوں میں


محسن حریم دل میں اسے دیکھ دیکھ کر

اپنا طواف آپ کیے جارہاہوں میں[3]

تصنیفات

ترمیم
  • فغان درویش  (طبع 1939ء الہ آباد)
  • برہان العاشقین (طبع 1931ء پٹنہ)

خلفا

ترمیم
  • حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی داناپوری (صاحبزادے و جانشین)
  • حضرت مولانا عبد الغنی محسنی (کراچی)
  • حضرت سید عبد الحلیم اکبری (الہ آباد)
  • حضرت مولانا غلام رسول خاں محسنی (آگرہ)
  • حضرت قاضی غلام کبریا ابوالعلائی (چورو)
  • حضرت حکیم سید عبد الرحمٰن کاکوی (کراچی)
  • حضرت خادم حسین قمری (سجادہ نشین خانقاہ قمریہ، راجستھان)
  • حضرت مولانا سید اسماعیل ابوالعلائی روح کاکوی (پٹنہ) وغیرہ [5]

نکاح و اولاد

ترمیم

شاہ محسن داناپوری نے تین شادیاں کیں تھی پہلی شادی مولانا سید نظیر حسن ابوالعلائی داناپوری کی بیٹی سے ہوئی ان سے دس اولاد ہوئیں جن میں صرف ایک صاحبزادے حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی داناپوری زندہ رہے باقی سب کم سنی میں فوت ہوئے۔ آپ کی دوسری شادی خانقاہ منیر شریف کے سجادہ نشین حضرت سید شاہ فضل احمد فردوسی کی بیٹی سے ہوئی جن سے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی، بیٹی شمس النہار کو چھوڑ کر تینوں فرزند سید زین الساجدین، سید امین الساجدین، سید عین الساجدین عہد شباب میں فوت ہوئے۔ شمس النہار کا نکاح نسیم ہلسوی کے پوتے سید اختر عالم ابوالعلائی سے ہوا یہ کراچی میں آباد ہیں۔ آپ کی تیسری شادی حکیم سید عبد الصمد (نیاواں متصل منیر شریف) کی بیٹی سے ہوئی جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[5]

وصال

ترمیم

اتوار کی شام 24 محرم الحرام 1364ھ موافق 9 جنوری 1945ء کو وصال ہوا، تدفین دوسرے روز ہوئی، آپ کا مزار اقدس آستانہ مخدوم سجاد پاک، شاہ ٹولی، داناپور ضلع پٹنہ میں انوار تجلیات ہے۔ [5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. شاہ ظفر سجاد ابوالعُلائی۔ تذکرة الابرار 
  2. شاہ اکبر داناپوری۔ مولد فاطمی 
  3. ^ ا ب پ پروفیسر احمد اللہ ندوی۔ تذکرہ مسلم شعرائے بہار 
  4. شاہ ظفر سجاد ابوالعُلائی۔ تذکرة الابرار 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ انجم اکبرآ بادی۔ بزم ابوالعُلا