خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ

خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ بہار کے دار السلطنت پٹنہ میں واقع ایک عظیم علمی و روحانی مرکز۔

خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کی ایک خوبصورت تصویر

خانقاہ کا تاریخی پسِ منظر

ترمیم

صدیاں گذریں جب مشہد سے نکل کر حضرت سید حسن زنجانی (لاہور) کے پوتے مخدوم لطیف الدین بندگی اپنے روحانی قافلہ کے ساتھ ملتان آئے اور لاہور کے راستے دہلی آئے اور یہاں بو علی شاہ قلندر کی خدمت بابرکت میں رہے اور مرید ہوکر سلسلہ کے مجاز ہوئے، بو علی شاہ قلندر کے وصال کے بعد بہار شریف میں مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی خدمت میں کچھ عرصہ تک رہے اور تعلیم و تربیت کے منازل طے کرتے رہے پھر مخدوم جہاں کے حکم سے بہار شریف سے تقریباً دیڑھ کوس اتر کی جانب ایک مقام پر قیام کرتے ہوئے مخدوم لطیف الدین بندگی نے اپنے عصا کو زمین میں نصب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ایں مورا‘‘ اور اسی جگہ آپ نے تالاب،مسجد اور خانقاہ کی تعمیر کی اور یہی جگہ بعد میں موڑہ تالاب کے نام سے مشہور ہو گئی[1]، بہار کی مشہور کتاب کیفت العارفین، اشرف التواریخ، تاریخ عرب سے ان حالات پر روشنی ملتی ہے،ساتھ اس کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ان برگزیدہ ہستیوں نے اپنی روحانیت سے معاشرے کی اصلاح ہی نہ کی بلکہ انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نقوش سنوار کر ایمان و عرفان کی شمع روشن کی جس کی روشنی آج بھی باقی ہے۔[2]

خانقاہ موڑہ تالاب بہار کی اولین خانقاہوں میں سے ایک ہے، یہاں کے سجادگان کا سلسلہ طریقت چشتیہ قلندریہ تھا جب کہ دوسرے بڑے سلاسل بھی تھے مگر بو علی شاہ قلندر کا فیضان اس خانقاہ پر خوب رہا، مخدوم لطیف الدین بندگی سے لے کر مولانا شاہ بہاوالحق چشتی تک کا مزار خانقاہ موڑہ تالاب میں مسجد کے باہر واقع ہے، اس خانقاہ سے سلیم شاہی بھی وابستہ رہا، ملا عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں خانقاہ موڑہ تالاب کے مشائخ کا تذکرہ کیا ہے، مگر بارہویں صدی ہجری میں خانقاہ موڑہ تالاب کی بام و در حالت رکوع میں چلی گئی جس کے پیش نظر خانقاہ موڑہ تالاب کو داناپور میں از سر نو قائم کیا گیا، لہذا خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ در حقیقت خانقاہ موڑہ تالاب ہے جس کی ہندوستان میں ایک تاریخی حیثیت ہے۔خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ قطب العصر مخدوم سجاد پاک سے منسوب ہے۔جنھوں نے فقیری و درویشی کے چراغ کو روشن کیا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھلایا، آپ کی تعلیمات، کرامات اور صحبت کا اثر اس قدر ہوا کہ ہندوستان کا اکثر علاقہ آپ کے زیر اثر ہوا[3]۔ شاہ اکبر داناپوری فرماتے ہیں کہ


جو داناپور اک بستی ہے مشہور

وہ ہو ایمان کے انوار سے پر نور

یہیں ہے خانقاہ بوالعلائی

بڑی دولت ہے اس بستی نے پائی[4]

خاص معلومات

ترمیم

اس خانقاہ میں شروع سے لنگر کا انتظام رہا، بیواؤں اور یتیموں کا خاص اہتمام رہا، ضرورت مندوں کی حاجت کا خاص خیال رکھا گیا، یہاں تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں، امیر ہو یا غریب، کالا ہو یا گورا سب اس خانقاہ میں ایک ہی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کو داناپور کے مشائخ سے خاص عقیدت تھی[5]،  یہاں کی بیشتر کتب و رسائل عوام و خاص میں کافی مقبول ہیں، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے سجادگان و وابستگان نے تقریباً 100 سے زائد قیمتی کتابیں لکھی ہیں[6]۔ شاہ اکبر داناپوری فرماتے ہیں۔


اکبر کے گھر کا آپ نشاں پوچھتے ہیں کیا

اس بے نوا فقیر کی وہ خانقاہ ہے[4]

سلسلہ طریقت

ترمیم

خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ میں تقریباٍ تمام سلاسل کی اجازت و خلافت موجود ہے، طالب جس سلسلے کی خواہش رکھتا ہے اسے داخل سلسلہ کیا جاتا ہے اور اگر اپنی خواہش اپنے پیر پر موقوف کرتا ہے تو سلسلہ ابوالعلائیہ میں اسے داخل کر لیا جاتا ہے، اس خانقاہ میں تمام سلاسل کے باوجود سلسلہ ابوالعلائیہ کا غلبہ و دبدبہ زیادہ ہے[7][3]، شاہ اکبر داناپوری فرماتے ہیں۔

کوئی شے خالی نظر آئی نہ اسمِ ذات سے

نقشبندی ہوں نظر آتا ہے نقش اللہ کا


خانقاہ میں رائج چند معروف سلسلۂ طریقت کے نام یہ ہیں، ان میں ہر ایک سلسلہ کئی کئی واسطوں سے بھی پہنچا ہے جس کی ایک انفرادی حیثیت ہے۔

  • سلسلہ چشتیہ فریدیہ نظامیہ نصیریہ
  • سلسلہ قادریہ منعمیہ
  • سلسلہ سہروردیہ فردوسیہ
  • سلسلہ ابوالعلائیہ
  • سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
  • سلسلہ قلندریہ لطیفیہ
  • سلسلہ کبرویہ
  • سلسلہ زاہدیہ
  • سلسلہ شطاریہ
  • سلسلہ مداریہ[7]

خانقاہ سے وابستہ معروف ہستیاں

ترمیم

خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کی عظمت و شہرت مسلم ہے، ہندوستان اور بیرون ملک میں اس خانقاہ کے مریدین و معتقدین اور وابستگان نے بہترین خدمات انجام دی ہیں[8][9]، چند نام یہ ہیں۔

فہرست مریدین

فہرست معتقدین

سجادگان کی فہرست

ترمیم

خانقاہ موڑہ تالاب کی حیثیت سے اس خانقاہ میں اب تک بائیس سجادگان رونق سجادہ ہو چکے ہیں اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کی حیثیت سے چھٹے سجادہ نشین رونق سجادہ ہیں[2]۔خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے پہلے سجادہ نشین حضرت شاہ اکبر داناپوری ہوئے جنہیں خاصی شہرت حاصل ہے، شعرو شاعری، روحانی و عرفانی صحبت اور بندگان خدا کی کثرت سے یہ خانقاہ ہمیشہ بھری رہی ہے[6]۔ سجادگان کے نام یہ ہیں۔

خانقاہ کے تبرکات

ترمیم

خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ میں تبرکات کی زیارت حضرت شاہ اکبر داناپوری کے عرس کے موقع پر 15 رجب کو صبح قدیمی روایت کے موافق ہوتی چلی آرہی ہے[2] اور وقت زیارت دو مخصوص فارسی کلام شاہ محسن داناپوری کی منفرد انداز میں گائی جاتی ہ[11]ے۔ تبرکات کی فہرست یہ ہے۔

  • خانہ کعبہ کا ٹکڑا (حضرت شاہ اکبر داناپوری کو بطور تحفہ شیوخ عرب نے دیا تھا)

خانقاہ میں اعراس کی تفصیلات

ترمیم

یہاں عرس و فاتحہ اور مختلف محافل میں ایک خاص قسم کی کیفیت پیدا ہوتی ہ[6]ے، فہرست یہ ہے۔

خانقاہ کی موجودہ شاخ

ترمیم

خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کی شاخ آگرہ، الہ آباد، کشن گنج اور کراچی وغیرہ میں پھیلی ہوئی ہے[7]۔ چند معروف شاخ کے نام یہ ہیں۔

  • حجرہ اکبری، نئ بستی، آگرہ۔
  • خانقاہ حلیمیہ ابوالعلائیہ، چک، الہ آباد۔
  • خانقاہ چشتیہ، بشن پور بازار،  کشن گنج۔
  • خانقاہ ظفریہ،  ملیر، کراچی۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی۔ حالات حضرت شاہ اکبر داناپوری 
  2. ^ ا ب پ ت شاہ خالد امام ابوالعلائی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پس منظر 
  3. ^ ا ب شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی۔ تذکرۃ الابرار 
  4. ^ ا ب شاہ اکبر داناپوری۔ جذبات اکبر 
  5. شاہ اکبر داناپوری۔ تاریخ عرب 
  6. ^ ا ب پ ت ٹ ریان ابوالعلائی۔ انوار اکبری 
  7. ^ ا ب پ انجم اکبرآبادی۔ بزم ابوالعلا 
  8. شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی۔ حالات حضرت شاہ اکبر داناپوری 
  9. ^ ا ب شاہ خالد امام ابوالعلائی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پس منظر 
  10. ریان ابوالعلائی۔ انوار اکبری 
  11. ^ ا ب پ ریان ابوالعلائی۔ روحانی گلدستہ