ناروے میں خواتین (انگریزی: Women in Norway) اپنے حقوق اور سماج کے ہر شعبہ حیات میں اپنی حصے داری بڑھانے کے معاملے میں کافی رہی ہیں۔ ملک میں خواتین سے ہم دردانہ تحریک کافی ترقی کے مقام پر پہنچی ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں کے کئی قوانین بدلے جا چکے ہیں جن سے خواتین کو اعلٰی مقام کا حصول ممکن ہو سکا ہے۔ اس کے علاوہ سماج کے کئی رسم و رواج کی بھی اصلاح ہوا اور ملک میں خواتین کے لیے ایک مثبت رویہ قائم ہوا۔

1915ء میں لی گئی ناروے کی ایک خاتون کی تصویر

اہم ترین عہدوں پر خواتین

ترمیم

2017ء میں ناروے کے تین سب سے اہم اور طاقت ور عہدوں وزارت عظمیٰ، وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ پر تین خواتین فائز ہو گئی تھیں۔ دو خواتین ایرنا سولبرگ اور سیو جنسن پہلے ہی بالترتیب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے اہم عہدوں پر تھیں لیکن بعد میں ہفتے خاتون وزیر خارجہ کے تقرر کے بعد یہ تیسرا سب سے اہم عہدہ بھی ایک خاتون کے پاس آ گیا تھا۔ نئی تقررات کے بعد ناروے کی کابینہ کے کل اراکین کی تعداد انیس ہو گئی تھی اور ان میں سے وزیر اعظم سمیت 9 خواتین ہیں جبکہ بقیہ دس افراد مرد تھے۔ ناروے کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک خاتون وزیرخارجہ کا تقرر ہوا تھا۔ اناروے کی آزادی کے بعد ایک سو بارہ سالوں کے دوران تیس وزیر خارجہ اس عہدے پر فائز ہو ئے جو سب کے سب مرد تھے۔ تاہم ان تبدیلیوں کے بعد یہ روایت ختم ہوئی اور ایک خاتون کا اس عہدے پر تقرر عمل میں لایا گیا ۔ نئی وزیرخارجہ اکتالیس سالہ مس ’’اینے اریکسن سوریدے‘‘ کا تعلق حکمران جماعت (ہورے پارٹی) سے رہا ہے اور وہ اس سے قبل وزیر دفاع سمیت متعدد عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں۔[1]

کھیل میں نمایاں مقام

ترمیم

2019ء میں چین اور ہسپانیہ کے ساتھ ناروے بھی خواتین کے فٹبال ورلڈ کپ کی سولہ ٹیموں میں شامل ہو چکا تھا۔ ناروے نے ایک فیصلہ کن مقابلے میں جنوبی کوریا کو 2-1 سے شکست دی۔[2] اس سے پتہ چلتا ہے کہ کھیلوں میں، خاص طور پر فٹ بال کے معاملے میں ناروے کی خواتین کافی فعال رہی ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم