نامور سنگھ
غالباً یہ مضمون ویکیپیڈیا میں معروفیت کے عمومی اصول کے مطابق نہیں ہے۔ (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون میں ویکیپیڈیا کے معیار کے مطابق صفائی کی ضرورت ہے، (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
یہ ایک یتیم صفحہ ہے جسے دیگر صفحات سے ربط نہیں مل پارہا ہے۔ براہ کرم مقالات میں اس کا ربط داخل کرنے میں معاونت کریں۔ |
ڈاکٹر نامور سنگھ 1927 میں پیدا ھوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق جیون پور، ضلع وارانسی، یو پی بھارت کے ایک کسان گھرانے سے ہے۔ 1953 میں بنارس یونیورسٹی سے ہندی ادبیات میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔۔ وہ بنارس اور ساگر یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک رہے اس کے بعد وہ راجستھان کی جودھپور یونیورسٹی میں ہندی ادبیات کے شعبے کے صدر نشین اور پروفیسر کے عہدے سے سبکدوش ھوئے۔ وہ ہندی ادب کے ممتاز یساریت پسند (مارکسی) ادبی نقادادیب، دانشور اور معاشرتی، سیاسی مزاحمت کار ہیں۔ انھوں نے ہندی کی ترقی پسند تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ نامور سنگھ نے ایک معیاری ہندی سہ ماہی جریدے ۔۔"آلوچنا"۔۔ (تنقید) کے مدیر بھی رہے۔ وہ انگریزی کے شاعر ٹی ایس ایلیٹ سے خاصے متاثر ہیں۔ انھوں نے کئی محازوں پر انسان دوست تحریکیوں کا ساتھ دیا۔ وہ بھارت میں فرقہ وارانہ تعصبات کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہے۔ انھوں نے بی جے پی کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ھوئے اسے "ہندو فسطائیت" کا نام دیا۔ وہ سیاست کے بارے میں "جمہوریت اور ضمیر" کے بات کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سخت گیر بالشویک مارکسی سکہ بند نظریہ محض " دقیانوسیت" ہے۔ نامور سنگھ سادہ لوح انسان ہیں۔ حقیقت پسندانہ گفتگو کرنے والے ٹھنڈے زہن کے دانشور ہیں۔ اس کے ساتھ وہ فراخ دل ھونے کے ساتھ پرجوش "قدامت پسند " دکھائی دیتے ہیں۔ بہت شستہ ہندی میں گفتگو کرتے ہیں۔ انھوں نے زمانہ طالب علمی میں ہندی میں شاعری بھی کی۔ 1951 میں ان کے ہندی مضامین کا مجموعہ، ۔۔ "بقلم خود"۔۔ کے نام سے شائع ھوا۔ ان کا سب سے اہم تنقیدی کارنامہ۔۔" کویتا کا نیا پرتما"۔۔ ہے۔ نامور سنگھ نے ہندی شاعری پر مقالات اور مضامین بھی لکھے۔ انھوں نے حقیقت پسند شاعری کے حوالے سے شاعری کی ہیت، ساخت، سیاق،ڈرامائی شاعرانہ ساخت، طنز اور لایعنیت، پیچیدگی، ابہام تشکیک، آبلہ فریبی،اعصابی تناو کی کیفیات کو بڑے منطقی اور جدید پیرائے میں لکھا ہے۔ نامور مارکسی نقاد ھوتے ھوئے امریکا کی " نئی تنقید" کے دبستان سے خاصے جڑے ھوئے ہیں جو ہیت پسندانہ نقد کی ایک شکل ہے۔ نامور سنگھ نے ہندی شاعری کے حوالے سے " مکتی بودہ" کی اصطلاح کے تحت بتایا کہ کس طرح شاعری میں ہیت اور سیاق میں جدلیاتی انسلاک ھو پاتا ہے کیونکہ یہی حقیقت پسندانہ شاعری کی تشریح و تفھیم کرتی ہے اور یہی گہرائی اس کو معنی خیز بناتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مارکسی تنقید معاشرتی سیاق و سباق کی وضاحت کرنے میں کامیاب رہی ہے مگر ہندی کا شاعر جو تخلیق کررھا ہے دنیا اس کو سمجھ نہیں پا رہا اور وہ اس سلسلے میں وہ ناکام ہے۔ شاعری میں حریت کا انکشاف کرنے کے لیے نئی شاعری اور انتقادات سامنے آئیں ہیں۔ نامور سنگھ نے ہندی ادب و نقد کی تشریح و تفھیم پر بہت عمدہ کام کیا ہے۔ ان کا ہندی سائیتہ / ادب کی تنقید پر زیادہ تر کام " عالمانہ" ہے اور انھوں نے جدید ہندی ادبی تنقید کو نئی جہات اور معیارات سے ہم کنار کیا۔ { تحریر: احمد سہیل}