نریندر مودی کا عہد وزارت عظمی

نریندر مودی نے 26 مئی 2014ء کو راشٹرپتی بھون میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ مودی بھارت کے پہلے وزير اعظم ہیں جو آزادی ہند کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی پہلی کابینہ میں 45 وزرا تھے جو سابقہ یو پی اے حکومت کی کابینہ سے کم ہیں۔ نومبر 2014ء میں 21 نئے وزرا کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔ ان کی موجودہ کابینہ ميں 78 وزرا ہیں جو حالیہ برسوں کی عظیم ترین کابیناؤں میں شمار ہوتی ہے۔

معاشی حکمت عملیاں

مودی حکومت کی معاشی پالسیاں نو آزاد فریم ورک پر مبنی بھارتی معیشت کی نج کاری اور آزاد کاری پر مرکوز رہی ہیں۔ نریندر مودی نے اپنے عہد وزارت میں دفاع اور ریل وغیرہ کی متعدد صنعتوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دے کر بھارت کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی پالیسیوں کی آزاد کاری کی۔ نیز قوانین محنت میں اصلاحات کرکے کاریگروں کے لیے یونین کی تشکیل کو مشکل ترین اور مالکان کے لیے ملازمت پر رکھنے اور برطرف کرنے کے عمل کو مزید آسان بنایا۔ گو کہ ان اصلاحات کو بعض عالمی اداروں مثلاً عالمی بنک وغیرہ کی حمایت حاصل ہے لیکن متعدد بھارتی محققین نے ان کی مخالفت کی۔ مزدوروں کی یونینوں نے بھی قوانین محنت کی زبردست مخالفت کی، چنانچہ 2 ستمبر 2015ء کو بھارت کی گیارہ بڑی یونینوں نے مل کر ہڑتال کی، ان میں ایک یونین بی جے پی کی بھی تھی۔ سنگھ پریوار کی بھارتیہ مزدور سنگھ نے کہا کہ ان اصلاحات کے بعد کارپوریٹ اداروں کے لیے مزدوروں کا استحصال مزید آسان ہو جائے گا۔ اپنے پہلے بجٹ میں وزیر مالیات ارون جیٹلی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلے دو برسوں میں بجٹ کے خسارے کو 4.1 فیصد سے بتدریج کم کرکے 3 فیصد تک اور عوامی بنکوں کے حصص سے نکال لائیں گے۔ مودی حکومت کے پہلے سال بھارت کی مجموعی ملکی پیداوار میں ساڑھے سات فیصد کا اضافہ ہوا جس کی بنا پر بھارت تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی عظیم معیشت بنا۔ تاہم وزارت کے تیسرے سال اضافہ کی مذکورہ شرح گھٹ کر 6.1 فیصد ہو گئی۔ معاشی ماہرین نے اسقاط زر کو اس گراوٹ کی اصل وجہ قرار دیا۔

مودی حکومت نے غربت کے خاتمہ اور معاشرتی بہبود کی خاطر مختص رقم میں خاصی تخفیف کی۔ کانگریس کے دور حکومت میں سماجی پروگراموں پر صرف ہونے والی رقم جی ڈی پی کی 14.6 فیصد تھی جو مودی حکومت کے پہلے سال میں گھٹ کر 12.6 فیصد ہو گئی۔ نیز صحت اور خاندانی بہبود میں پندرہ فیصد اور ابتدائی و ثانوی تعلیم میں سولہ فیصد کی تخفیف ہوئی۔ سرو شکشا ابھیان کے لیے بجٹ میں مختص رقم میں بائیس فیصد کمی کی گئی۔ مزید برآں، مودی حکومت نے کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی کی، ویلتھ ٹیکس کو ختم کیا، سونا اور زیورات پر عائد ہونے والی کسٹم ڈیوٹی میں تخفیف کی اور سیلز ٹیکس میں اضافہ کیا۔ اکتوبر 2014ء میں مودی حکومت نے ڈیزل کی قیمتوں سے پابندی ہٹا دی اور بعد میں ڈیزل اور پٹرول دونوں پر ٹیکس بڑھا دیا۔ جولائی 2014ء میں نریندر مودی نے اس تجارتی معاہدہ پر دستخط سے انکار کر دیا جس کی رو سے عالمی تجارتی ادارہ بالی میں ہوئے معاہدہ کے نفاذ کا مجاز ہو جاتا۔ مودی کا کہنا تھا کہ وہ بھارتی کاشت کاروں کے تحفظ کے فقدان اور غذائی حفاظت کی ضرورتوں کی خاطر ایسا کر رہے ہیں۔ سنہ 2016ء ميں بھارت کے ہوائی اڈوں میں تیئیس فیصد اضافہ جبکہ کرایوں میں پچیس فیصد کمی ہوئی۔

ستمبر 2014ء مودی نے میک ان انڈیا کا پروگرام پیش کیا جس کا مقصد غیر ملکی کمپنیوں کو اپنی مصنوعات بھارت ہی میں تیار کرنے کی ترغیب دی گئی تاکہ یہ ملک صنعت گری کا عالمی مرکز بن سکے۔ معاشی آزاد کاری کے حامیوں نے اس اقدام کو سراہا جبکہ ناقدین کا کہنا تھا کہ اب غیر ملکی کمپنیاں بھارت کے بازاری حصص کے بڑے حصے پر قابض ہو جائیں گی۔ نجی صنعتی راہداریوں کی تعمیر کے لیے مودی حکومت نے اصلاح اراضی کا ایک قانون منظور کیا جس کی رو سے زمین کے مالک کاشت کاروں کی مرضی کے بغیر بھی نجی زراعتی زمینیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔