نسائیت پسند شاعری نسائیت کے اصولوں اور نظریات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، اسے فروغ دیتی ہے یا اس کی وضاحت کرتی ہے۔[1] یہ نسائیت کے اصولوں کے اظہار کے شعوری مقصد کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے، حالاں کہ بعض اوقات کچھ تحریروں کو بعد کے عہد میں نقادوں کے ذریعہ نسائیت پسندی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔[1] کچھ مصنفین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نسائیت کے خیالات کا اظہار کرتے رہے، جب کہ ضروری نہیں کہ وہ مصنفین اپنے دور میں سیاسی تحریک کے ایک سرگرم رکن رہے ہوں۔[1] تاہم بہت ساری نسائيت پسند تحریکوں نے اشعار کو ابلاغ کے لیے بطور ترانہ، شاعری کے انتخاب اور عوامی سطح پر مطالعے کے ذریعہ بات چیت کرتے ہیں۔[1]

عام طور پر، نسائیت پسند شاعری اکثر زبان اور معنی کے بارے میں مفروضوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتی ہے۔[2] اس میں عام طور پر خواتین کے تجربات کو جائز اور قابل توجہ سمجھا جاتا ہے اور اس میں معمولی اور دوسرے کم توجہ پانے والے مضامین کے تجربات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔[2]

کم وائٹ ہیڈ نے کہا ہے کہ نسائیت پسندی کی شاعری کی "شناخت کی کوئی تاریخ پیدائش نہیں ہے"، لیکن کچھ اہم شخصیات ایسی ہیں جن کی شناخت نسائی خیالات کے ابتدائی حامی کی حیثیت سے کی گئی ہے اور جو شاعری کے ذریعہ اپنی سیاست کا اظہار کرتے ہیں۔[2] پہلی نسائی شاعر کا لقب اکثر صافو کو دیا جاتا ہے، کم از کم وہ اس کا کچھ حصہ مانی جاتی ہے، اس لیے کہ جب وہ قدیم یونان میں خواتین کی ہم جسن پرستی کے بارے میں لکھتی نظر آتی ہے تو ایک ایسی ثقافت اور وقت جب نسوانی ہم جنس پرست کو عام طور پر نظر انداز کیا جاتا تھا یا روکا جاتا تھا۔[3][4][5]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت Shyama Golden۔ "Poetry and Feminism"۔ Poetry Foundation۔ اخذ شدہ بتاریخ ستمبر 4, 2018 
  2. ^ ا ب پ Kim Whitehead (1996)۔ The Feminist Poetry Movement۔ Jackson MI: University Press of Mississippi۔ صفحہ: 3, ix–x, xii, xv, xvi, xviii, xviii–ix 
  3. Reading Sappho : contemporary approaches۔ Greene, Ellen, 1950-۔ Berkeley: University of California Press۔ 1996۔ ISBN 978-0-520-91806-1۔ OCLC 43477494 
  4. Deb Jannerson (2011)۔ "ADVENTURES IN FEMINISTORY: SAPPHO"۔ Bitch Media۔ 02 مئی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2021 
  5. Gabby Catalano۔ "How This Historic Icon Influenced Feminist Writers Today"۔ Women's Media Centre