نشاۃ ثانیہ
نشاۃ ثانیہ (فرانسیسی و انگریزی: Renaissance، اطالوی: Rinascimento) قرون وسطیٰ میں یورپ خصوصاً اطالیہ سے اٹھنے والی ایک ثقافتی تحریک تھی جو 14 ویں سے 17 ویں صدی تک جاری رہی۔ یہ عہد قدیم ذرائع کی بنیاد پر علم کی تحصیل، شاہی و پاپائی سرپرستی میں اضافے، مصوری میں متعین سمت میں پیشرفت اور سائنس کے میدان میں ترقی کا احاطہ کرتا ہے۔
مورخین کے درمیان ہمیشہ سے نشاۃ ثانیہ کی اصطلاح اور بطور تاریخی عہد اس کی صحت کے بارے میں بحث رہی ہے۔ چند نشاۃ ثانیہ کی قرون وسطیٰ سے ایک ثقافتی "پیشرفت" کا عہد کی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں بلکہ اسے عہد عتیق (Ancient Age) کی قنوطیت اور ماضی کی حسرت ناک یادوں کے دور ہی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں،
نشاۃ ثانیہ کا لفظ تاریخی و ثقافتی تحریکوں کے لیے بھی استعمال ہوتا آیا ہے جیسے قرولنجی نشاۃ ثانیہ اور بزنطینی نشاۃ ثانیہ۔
نام نہاد نشاۃ ثانیہ دراصل یورپ کے گم گشتہ قدیم خیالات کی از سر نو پیدائش تھی۔ نشاۃ ثانیہ کو دراصل مغربی تہذیب کو مسلمانوں کے ہاتھوں ملنے والے قدیم یونانی فلسفے اور جدید اسلامی فلسفے سے تحریک ملی۔ سقوط ہسپانیہ کے نتیجے میں قرطبہ کے کتب خانے سے مسیحیوں کو 4 لاکھ کتابیں ملیں جس میں قدیم یونانی فلسفے کے عربی تراجم بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ مسلمان فلسفیوں، جیسے ابن رشد وغیرہ، کا کام بھی مسیحی دنیا میں درآمد کیا گیا جس نے یورپی دانشوروں کو نئے دانشورانہ مواد تک رسائی دی۔
یونانی و عربی علوم صرف ہسپانیہ سے ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ سے براہ راست بھی یورپ میں منتقل ہوئے۔ ریاضی کا علم مشرق وسطیٰ میں زبردست ترقی پا چکا تھا اور صلیبی جنگوں کے بعد مشرق قریب میں مسیحی ریاستوں کے باشندے ان علوم کو یورپ میں منتقل کرنے کا باعث بنے۔