نظیر اکبر آبادی

شہرآشوب

نظیر اکبر آبادی کا نام شیخ ولی محمد تھا۔ نظیر تخلص رکھ کر شاعری کی۔(1735-1740 کے عرصہ کے دوران پیدا ہوئے (ڈاکٹر رام بابو سکسینہ کے مطابق نادر شاہ کے دہلی حملہ کے وقت پیدا ہوئے تھے) دلی میں پیدا ہو‎ئے۔ آپ کے والد کا نام محمد فاروق تھاجو اپنے والدکی بارہ اولادوں میں سے صرف ایک ہی بچے تھے۔ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والدہ کے ساتھ آگرہ منتقل ہو گئے اور محلّہ تاج گنج میں مقیم ہوئے۔ ایک مکتب سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ طبیعت میں موزونیت فطرت سے ملی تھی اس لیے شاعری شروع کی۔ نظیر ایک سادہ اور صوفی منش آدمی تھے، ان کی ساری عمر معلمی میں بسر ہوئی۔ وہ قناعت پسند تھے، بھرت پور کے حکمرانوں نے دعوت نامے بھیجے پر انھوں نے قبول نہ کیے۔ وہ کسی دربار سے وابستہ نہیں ہوئے، آخری عمر میں فالج کی حالت میں مبتلا ہوئے اور 1830ء میں انتقال کرگئے۔ آپ کا مزار دہلی میں ہے۔ اردو کی نئ کتاب ہائ اسکول(اترپردیش)نصاب میں شامل کتاب میں نظیر صاحب کی تاریخ پیدائش کے بارے ميں اختلاف کے ساتھ 1732/1735 لکھا گیا ہے۔

نظیر اکبر آبادی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 30 جنوری 1735ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 اگست 1830ء (95 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شاعری

ترمیم

نظیر اکبر آبادی کی شاعری اپنی علاحدہ دنیا رکھتی تھی۔ انھوں نے میر وسودا کی بہارسخن بھی دیکھی اور دبستان لکھنؤ کی جوانی کا نکھار بھی لیکن ان کی آزاد منشی اور منفرد رنگ طبیعت نے انھیں کسی دبستان کا پابند نہیں ہونے دیا۔ آپکو آٹھ زبانوں پر عبور تھا۔ عربی فارسی اردو پنجابی بھاشا مارواڑی پوربی اور ہندی۔.. مشہور نظموں میں مفلسی، آدمی نامہ[2]، روٹیاں، بنجارا نامہ[3]، برسات کی بہاریں وغیرہ شامل ہیں۔

عوامی شاعر

ترمیم

نظیر اکبر آبادی کو بجا طور پر اردو کاپہلا عوامی شاعر تسلیم کیا جا سکتا ہے وہ زندگی کے ہر پہلو پر گہری دلچسپی سے غور کرتے، شدت سے محسوس کرتے اور پھر اسے شاعری کا جامہ پہنا دیتے۔ وہ عوام کے شاعر تھے اور انھیں کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے۔ عوامی رنگ رلیوں، چہل پہل، تفریح وغیرہ میں شوق و ذوق سے شریک ہوتے۔ اردو کے دوسرے شعرا کے یہاں فلسفہ ہے، تغزل ہے۔ لفظی و معنوی صنائع ہیں۔ جن سے اہل علم لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ان پڑھ انھیں سمجھ نہیں پاتے کیونکہ ان میں عوام کے دلوں کی دھڑکنیں نہیں ہوتیں۔ نظیر عوام کے شاعر تھے نیز وہ خالص ہندوستانی شاعر تھے۔ وہ ہندو مسلمان سب کے غم و ماتم میں شریک ہوتے۔ عید، شب برات، ہولی، دیوالی، دسہرہ غرض ہر تہوار پر نظمیں لکھتے تھے۔ ایک طرف خواجہ معین الدین چشتی کی تعریف کرتے تو دوسری طرف گرونانک کو بھی نذرعقیدت پیش کرتے ہیں۔ آپکو لسان العصر عوامی شاعر اور اردو شاعری کا چاسر اور اردو کا شکیسپیر بھی کہا گیا۔.

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://www.rekhta.org/authors/nazeer-akbarabadi
  2. "آدمی نامہ"۔ اردو گاہ
  3. "بنجارا نامہ"۔ اردو گاہ