نوح
نوح (/ˈnoʊ.ə/؛ عبران: נֹחַ، נוֹחַ، جدید: Noaẖ، سریانی: ܢܘܚ نوکھ، قدیم یونان: Νῶε) ابراہیمی مذاہب کے اہم پیغمبروں میں سے ایک ہیں یہ دسویں اور قبل از سیلاب آخری بزرگ ہیں۔
نوح | |
---|---|
نوح کی قربانی |
حضرت نوح علیہ السلام کی تفصیلی سیرت
ترمیمحضرت نوح علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں اور ان کا شمار اولوالعزم رسولوں میں ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ان کا ذکر کئی سورتوں میں آیا ہے اور ان کی زندگی سے صبر، استقامت اور توحید کی تبلیغ کا سبق ملتا ہے۔[1]
1. حضرت نوح علیہ السلام کا نسب
ترمیمحضرت نوحؑ کا نسب حضرت آدم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق ان کا پورا نام نوح بن لامک بن متوشلخ بن خنوخ (ادریس) بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم ہے۔[2]
2. حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت
ترمیمحضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت نبی بنا کر بھیجا جب لوگ شرک اور گمراہی میں مبتلا ہو چکے تھے۔ انھوں نے قوم کو تقریباً 950 سال تک اللہ کی توحید کی دعوت دی، لیکن قوم نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
قرآن میں ارشاد ہے:
"اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس کم ایک ہزار سال رہا، پھر ان کو طوفان نے آ لیا اور وہ ظالم تھے۔" (سورہ العنکبوت: 14)
3. حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغ
ترمیمحضرت نوحؑ نے ہر ممکن طریقے سے اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی:
- علانیہ تبلیغ – انھوں نے کھلے عام توحید کا پیغام پہنچایا۔
- خفیہ تبلیغ – راتوں کو چھپ کر نیک دل افراد کو اسلام کی دعوت دی۔
- مثالوں اور نصیحتوں سے تبلیغ – انھیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور اللہ کی رحمت کی خوشخبری دی۔
لیکن قوم نے ان کی بات کو مذاق سمجھا، انھیں جھوٹا کہا اور کمزور ایمان والوں کا مذاق اڑایا۔
4. حضرت نوح علیہ السلام کی دعا
ترمیمجب قوم نے مسلسل انکار کیا اور ان پر ظلم بڑھا دیا، تو حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی:
"اے میرے رب! میں مغلوب ہو چکا، تو میری مدد فرما۔" (سورہ القمر: 10)
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں کشتی (بحری جہاز) بنانے کا حکم دیا۔
5. حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اور طوفان
ترمیماللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ہدایت دی کہ وہ ایک بڑی کشتی بنائیں۔ جب قوم نے یہ دیکھا تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے، کیونکہ اس وقت زمین پر کوئی پانی نہیں تھا۔ لیکن حضرت نوحؑ نے اللہ کے حکم پر عمل جاری رکھا۔
جب کشتی مکمل ہو گئی تو اللہ نے فرمایا:
"اور جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور (زمین) سے پانی ابلنے لگا تو ہم نے کہا: ہر قسم (کے جانداروں) میں سے ایک جوڑا (نر اور مادہ) اور اپنے گھر والوں کو کشتی میں لے لو، مگر وہ جن کے بارے میں (عذاب کا) فیصلہ ہو چکا ہے اور باقی سب کو چھوڑ دو۔" (سورہ ہود: 40)
پھر آسمان سے بارش ہونے لگی اور زمین سے پانی نکل آیا۔ یہ ایک بہت بڑا طوفان تھا جس نے پوری زمین کو ڈھانپ لیا اور تمام کافر ڈوب گئے۔
6. بیٹے کا انکار اور انجام
ترمیمحضرت نوح علیہ السلام کے ایک بیٹے کنعان نے ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ جب طوفان آیا تو حضرت نوحؑ نے اسے کشتی میں سوار ہونے کے لیے کہا، لیکن اس نے کہا کہ وہ پہاڑ پر چڑھ کر بچ جائے گا۔ لیکن اللہ کے حکم سے وہ بھی طوفان میں غرق ہو گیا۔
قرآن میں ذکر ہے:
"(نوح نے کہا) اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔ اس نے کہا: میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا: آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں، سوائے اس کے جس پر وہ رحم کرے۔ اور ایک موج ان دونوں کے درمیان آ گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔" (سورہ ہود: 42-43)
7. طوفان کے بعد کی زندگی
ترمیمجب تمام کافر ہلاک ہو گئے، تو طوفان رک گیا اور پانی اترنا شروع ہو گیا۔ کشتی جودی پہاڑ پر آ کر رک گئی۔
"اور کہا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! (بارش) رک جا۔ اور پانی گھٹ گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا: ظالم لوگوں پر لعنت ہو۔" (سورہ ہود: 44)
اس کے بعد حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھیوں نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ ان کی نسل سے انسانیت دوبارہ آباد ہوئی، اسی لیے انھیں "ثانی آدم" (دوسرا آدم) بھی کہا جاتا ہے۔
8. حضرت نوح علیہ السلام کی وفات
ترمیمروایات کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کی عمر تقریباً 950 سے 1050 سال کے درمیان تھی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اور ساتھیوں نے ان کے مشن کو جاری رکھا۔
9. حضرت نوح علیہ السلام سے ملنے والے اسباق
ترمیم- صبر اور استقامت – انھوں نے 950 سال تک تبلیغ کی اور مسلسل رد کیے جانے کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔
- اللہ کی قدرت پر یقین – جب ظاہری طور پر کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا، تب بھی وہ اللہ کے حکم پر ایمان رکھتے تھے۔
- گناہ اور شرک سے بچنا – ان کی قوم کا انجام ایک تنبیہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں، وہ سزا پاتے ہیں۔
- نیک اعمال کی اہمیت – حضرت نوحؑ کا بیٹا ان کا قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود نافرمانی کی وجہ سے ہلاک ہو گیا، جو بتاتا ہے کہ ایمان ذاتی عمل ہے، صرف رشتہ داری سے کچھ نہیں ہوتا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ پښتو و لویکان غزنه : یک تحقیق جدید در تاریخ ادبیات پښتو و تاریخ غزنه / نویسنده عبدالحی حبیبی۔ University of Arizona Libraries۔ 2012
- ↑ پښتو و لویکان غزنه : یک تحقیق جدید در تاریخ ادبیات پښتو و تاریخ غزنه / نویسنده عبدالحی حبیبی۔ University of Arizona Libraries۔ 2012
پیش نظر صفحہ شخصیت سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |