نووہ شلوم (عبرانی: נְוֵה שָׁלוֹם بمعنی نخلستان امن؛ عربی: واحة السلام ؛ انگریزی: Neve Shalom)[2] اسرائیلی یہودیوں اور عربوں کا مشترکہ طور پر بسایا ہوا ایک قصبہ جو جو اس نظریے کے تحت بسایا گیا ہے کہ یہ دونوں قومیں امن و آشتی سے ایک ساتھ رہ سکتی ہیں اور یہ لوگ عوام کے درمیان مساوات اور باہمی معاملات پر تفہیم کی آگہی کے لیے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ گاؤں اللطرون کی دو پہاڑیوں میں سے ایک کی چوٹی پر اییلون کی وادی کے اوپر، [3] تل ابیب اور یروشلم کے راستے کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ مطہ یہودہ ریجنل کونسل (عبرانی: מועצה אזורית מטה יהודה) کی حدود میں واقع نووہ شلوم کی آبادی 2016ء میں 267 افراد تھی۔[1]


נְוֵה שָׁלוֹם
واحة السلام
گاؤں کا منظر
گاؤں کا منظر
ضلعیروشلم
کونسلمطہ یہودہ
قیام1969
آبادی (2015)[1]265
ویب سائٹnswas.org

تاریخ

ترمیم

نووہ شلوم کا نام کتاب یسعیاہ 32: 18 میں مذکور اس عبارت سے لیا گیا ہے ؛ ”میری قوم پُرسکون اور محفوظ آبادیوں میں بسے گی، اُس کے گھر آرام دہ اور پُرامن ہوں گے۔“[4]

اس گاؤں کا خیال برونو ہسار کے ذہن میں آیا تھا۔ برونو ہسار مصر میں ایک غیر مذہبی یہودی خاندان کے ہاں پیدا ہوا۔ فرانس میں انجینئری کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں اس نے مسیحیت اختیار کر لی تھی۔ زمانہ جنگ میں فرانس کے اندر یہودیوں کے خلاف روا رکھے جانے والے تعصب کو قریب سے دیکھنے کے بعد اسے شدت سے اپنے یہودی الاصل ہونے کا احساس ہوا۔[5] اس نے فرقہ دومینکن میں شمولیت اختیار کر لی جہاں 1950 میں اس کا تقرر کاہنوں میں ہوا اور 1953 میں اسے مرکز مطالعہ یہودیت قائم کرنے کے لیے یروشلم بھیجا گیا جہاں 1966 میں اس نے اسرائیل کی شہریت حاصل کر لی۔

تعلیم

ترمیم

گریس فیوورجر کے مطابق نووہ شلوم یا واحة السلام ایک ساتھ امن سے رہنے کے طرز تعلیم و تعلم کو عالمی سطح پر بین الثقافتی ہم آہنگی کا ایک رول ماڈل تسلیم کیا گیا ہے۔[6]

حواشی

ترمیم
  1. ^ ا ب "List of localities, in Alphabetical order" (PDF)۔ Israel Central Bureau of Statistics۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-10-16
  2. (Halabi اور Zak 2004، صفحہ 125)۔”The village has an official name in Hebrew and in Arabic: Neve Shalom/Wahat al Salam, which is meant to convey the partnership between Arabs and Jews in the life of the community. In practice, when one is speaking Hebrew, the village is called “Neve Shalom”; when one is speaking Arabic it is sometimes called “Neve Shalom” and sometimes “Wahat al Salam”۔ Only when the members of the village are speaking English or another third language, do they refer to the village by its full name in both languages ۔
  3. (Feuerverger 2001، صفحہ 1)
  4. (Gavron 2008، صفحہ 57–72)۔
  5. (Gavron 2008، صفحہ 58)۔
  6. (Feuerverger 2011، صفحہ 84)۔

حوالہ جات

ترمیم