کونڈے وہ برتن ہیں جن میں کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو رکھا جاتا ہے۔

خلافت سے دل برداشتہ ہو گئے اور باگ خلافت حضرت معاویہ کے سپرد کردی۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ انتہائی دانشمند مدبر، معاملہ فہم منتظم، رعیت شناس انسان تھے اور زمانہٴ نبوی سے ہی اپنی انتظامی صلاحیت، مدبرانہ لیاقت اور سیاسی بصیرت میں ممتاز تھے ان کی قائدانہ صلاحیت کو دیکھ کر حضرت عمررضى الله عنه نے انھیں کسرائے عرب کا لقب دیا تھا۔اور زمانہٴ فاروقی سے ہی شام کے عہدئہ گورنری پر فائز تھے اور بیس سال سے وہاں کی کامیاب قیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔

حضرت معاویہ جس وقت مسند نشین ہوئے اس وقت ملک کے سیاسی حالات بے حد ناسازگار تھے، طرح طرح کے فتنے جنم لے رہے تھے، فتنہٴ شیعیت کی جڑیں کافی مضبوط ہو گئی تھیں اور وہ طریقے بدل بدل کر اسلام میں رخنہ اندازیاں کر رہے تھے، اگرچہ وہ خود داخلی انتشار کا شکار ہوکر کئی حصوں میں تقسیم ہو چکے تھے، مگر سب کا مطمح نظر اور نصب العین ایک تھا۔ اور سب کے سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اسلام دشمنی میں سرگرم تھے۔ ایسے حالات میں نئی حکومت کے لیے ضروری تھا کہ وہ سب سے پہلے بغاوت کے خاتمہ کے لیے کوئی مثبت اور ٹھوس قدم اٹھائے اور مفسدوں کی بیخ کنی میں سخت موقف اختیار کرے۔

حضرت معاویہ جیسے ہوش مند انسان سے کیسے ممکن تھا کہ وہ اس اقتضاء حکومت کو نظر انداز کردیتے اور فتنہ کے استیصال میں غفلت برتتے، چنانچہ برسرِ اقتدار آتے ہی انھوں نے فتنہ وبغاوت کے سدباب کو ضروری سمجھا اور شرپسند عناصر کی سرکوبی کی ملک گیر مہم چلائی اور باغیوں (شیعوں) کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرنا اور سزائیں دینا شروع کر دیا جس سے بہت سے شیعہ قتل ہوکر اپنے کیفرکردار کو پہنچے اور کچھ لوگوں نے سزا کے خوف یا موت کے ڈرسے روپوشی اختیار کی۔ اور کتمان مذہب (تقیہ) کرکے جان بچانے میں عافیت سمجھی۔

ایک شیعہ موٴرخ اس وقت کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔

”شیعان علی کے مال ومتاع ضبط کرلیے گئے، وہ قتل کیے گئے اور اس قدر ظلم ان پر کیے گئے کہ کوئی اپنے کو شیعہ نہ کہہ سکتا تھا۔“ (تاریخ اسلام ص 33، ج:1، از ذاکر حسین جعفری شیعہ)

مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ بہت سے شیعہ قتل ہوکر ٹھکانے لگ گئے اورجو کچھ باقی رہے وہ بھی اس قدر دہشت زدہ اور خائف تھے کہ خود شیعہ کہلوانا چھوڑدیا تھا۔اور اپنے انجام بد کے ڈرسے خانہ نشین ہو گئے۔

یہ لوگ بظاہر خاموش ہو گئے، مگر درحقیقت ان کے سینوں میں بغض معاویہ کی آگ بدستور بھڑک رہی تھی۔ اور وہ ان کے خلاف سانپ کی طرح پیچ وبل کھا رہے تھے اور ان کی حکومت سے گلوخلاصی اور چھٹکارے کے شدت سے منتظر تھے۔

  چنانچہ بیس سال انتہائی کامیاب حکومت کرنے کے بعد 22/رجب 60ھ کو ملت اسلامیہ کا یہ عظیم مدبر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون.

حاسدین معاویہ کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیاہوسکتی تھی کہ ان کا جانی دشمن دنیا میں نہیں رہا، اس لیے انھوں نے وفات معاویہ کی خبر سن کر خوب خوشیاں منائیں اور اظہار مسرت کے طور پر میٹھی ٹکیاں (کونڈوں کی پوریاں) بنائیں اور ایک دوسرے کو کھلاکر اپنے جذبہٴ عناد کو تسکین دی اور یہ ساری کارروائی سنیوں سے چھپ کر اور پوشیدہ طریقہ سے انجام دی گئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کارروائی مخفی کیوں رکھی گئی اور انھوں نے وفات معاویہ پر اپنی خوشی کا اظہار کھلم کھلا کیوں نہیں کیا؟ مولانا عبد العلی صاحب فاروقی اس کی وجہ لکھتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:

”کیوں کہ اس وقت اہل سنت وجماعت کا غلبہ تھا اور وہ صحابیٴ رسول کی توہین اور ان کی وفات پر اظہار مسرت کو برداشت نہیں کرسکتے تھے اس لیے رافضیوں نے چھپ چھپاکر اپنے اپنے گھروں میں ہی ٹکیاں بنالیں اور انھیں آپس میں تقسیم کرکے خفیہ طور پر اظہار مسرت کرکے دشمنیٴ اصحاب کا ثبوت فراہم کیا، بعد میں جب اس کا چرچا شروع ہوا تو نہایت ہی شاطرانہ انداز میں حضرت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کر دیا۔ (تعارف مذہب شیعہ ص 158)

یہی وجہ ہے کہ اس رسم میں آج تک اس بات کی پابندی ہے کہ کونڈوں کی ٹکیاں کسی خفیہ جگہ پر پکائی جاتی ہیں۔ پھر بڑے اہتمام سے انھیں ڈھک کر رکھا جاتا ہے اور فاتحہ بھی کسی اندھیری جگہ پر دلائی جاتی ہے۔ اور پھر پردے کے ساتھ ہی انھیں کھایا کھلایا جاتا ہے۔

لیکن آگے چل کر جب اس سازش کی خبر سنیوں کو ہوئی اور اس راز سربستہ سے پردہ اٹھا تو شیعوں نے اپنا جرم چھپانے کے لیے اس کا رخ امام جعفر صادق کی فاتحہ کی جانب موڑ دیا۔

یہ ہے اس رسم کی اصل اور حقیقت۔ جس میں نادانستہ طور پر بعض ناخواندہ اہل سنت بھی شریک ہیں۔ اور اس رسم کو امرِ دین اور کارِ ثواب سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ اور یہ نہیں جانتے کہ یہ ”حب علی کے پردے میں بغض معاویہ“ کا مصداق ہے۔

شیعی موقف ترمیم

زمانہ امام جعفر صادق 34 سال پہ محیط ہے (114ھ تا 148ھ) ان میں معجزات وکرامات اور ارشادات بھی ہیں جنہیں الجرائح و الخرائج نے اور تزکرة المعصومین نے تفصیل سے لکھا ہے امام علم لدنی کے مالک تھے اور پسندیدہ رب تھے ایک صحابی نے دعا کے لیے کہا آپ نے اپنے الله سے التجا کر کے مراد پوری کر دی صحابی نے عقیدت میں نیاز تیار کی کونڈے میں رکھ کر صبح کی نماز کے بعد نمازیوں کو کھلا دی (22 رجب تھی) لوگوں نے دیکھا دیکھی منتیں ماننا شروع کر دیں جن کی پوری ہوگئیں کونڈے بھرنے شروع ہو گے۔ اور یوں تیرہ سو سال سے یہ رسم چلی آ رہی ہے۔ عبدالرحمن جامی نے شواہد النبوة میں جعفر صادق کا وعدہ پورا کرنا اور کرامات دکھانا وضاحت سے لکھا ہے یہ نذر ونیاز اس لیے زیادہ مقبول ہوئی کہ جعفر صادق نے فرمایا منت کے صیغے پڑھ کر قصد کیا جاے۔ تو مراد پوری ہوتی ہے، رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ مومنین سے محبت بڑھتی ہے، صلہ رحمی کا موقع ملتا ہے۔ پاکیزگی سے کھانا پکانے کا درس ملتا ہے۔ اہل بیت سے محبت بڑھتی ہے۔

سنی موقف ترمیم

جواز کے قائلین ترمیم

ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو ایصال ثواب کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز ہے، مگر اس میں اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے، یہ بے جا پابندی ہے۔[1]
  • محدث اعظم پاکستان، مولانا محمد سردار احمد رضوی، 22 رجب کو کونڈے بھی شرعا جائز و باعث خیروبرکت ہیں[2]
  • امیر اہلسنت و مفتی پاکستان ابو البرکات سید احمد قادری 22 رجب کے کونڈے بھرنا بھی اہل سنت کے معمولات میں سے ہے اور اس کے جواز کے وہی دلائل ہیں جو فاتحہ و ایصال ثواب کے ہیں[2]
  • علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی اپنی کتاب جنتی زیور میں لکھتے ہیں: ماہ رجب میں حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کو ایصال ثواب کرنے کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں۔[2]
  • مفتی محمد خلیل خان برکاتی، اپنی کتاب سنی بہشتی زیور میں لکھتے ہیں: ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو ایصال ثواب کے لیے کھیر پوری (حلوا) پکا کر کونڈے بھرے جاتے ہیں اور فاتحہ دلا کر لوگوں کو کھلائے جاتے ہیں، یہ بھی جائز ہے۔[3]

علمی و تحقیقی منہج ترمیم

22 رجب کو امیر معاویہ بن ابو سفیان کی وفات ہوئی تھی، یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ اصلی اہل سنت کے برعکس دراصل وہ لوگ جو نذر نیاز کے خلاف ہیں اور منت ماننے والوں کو کافر اور مشرک کہتے ہیں وہ وفات معاویہ کا بہانہ کر کے اس نیاز کے خلاف فتوی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے۔ یہ مرحومین کی فاتح پڑھنے، توسل اور شفاعت کے علاوہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر مسلمانوں کے ساتھ اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ اپنے دینی معیارات کے مطابق یہ اصلی اہلسنت کو کافر اور مشرک بھی کہتے ہیں اور اپنی تعلیمات کے مطابق اس نیاز کو معاویہ کی موت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نیاز امیر معاویہ کی وفات پر خوشیاں منانے کے لیے ہے۔ جبکہ اہل سنت حضرات کا جواب ہے کہ مرگ معاویہ کا واقع 60ھ میں ہوا (وفات معاویہ) اور کونڈوں کی ابتدا 120ھ میں ہوئی درمیان میں 60 سال کا فرق ہے دوسرا نذر امام جعفر صادق ایک منت ہے جو مراد پوری ہونے کے بعد دی جاتی ہے اسے معاویہ کے ساتھ جوڑنا کم علمی ہے اور تاریخی مطالعے کا فقدان ہے۔[4] کونڈے ایک نیاز اور منت کا نام ہے جسے نیاز امام جعفر صادق بھی کہا جاتا ہے کونڈے نہ تو عربی زبان کا لفظ ہے اور نہ ہی اس کا کسی شیعہ و سنی معتبر کتاب میں ذکر ہے یہ صرف گھروں میں بٹھا کر کھلائی جاتی ہے باہر لے جانا ممنوع ہوتا ہے۔ و ہابی اور قادیانی منتوں اور نیازوں نیز اللہ کے ولیوں کے شدید مخالف ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ یہ رسم 1906ء لکھنؤ اور رام پور میں شروع ہوئی۔ یہ دونوں شہر ہندوستان میں واقع ہیں، قادیانی اور ان کے ہم فکر لوگ کہتے ہیں کہ لکڑہارے اور جعفرصادق کی من گھڑت کہانی بنائی گئی ہے 22 رجب امام جعفرصادق کا نہ یوم وفات ہے اور نہ ہی یوم ولادت۔ وہ لوگ ان کی ولادت 8 رمضان 80ھ ہے اور وفات 15 شوال 148ھ کو بتاتے ہیں۔ البتہ اغلب حنفا اور اصلی اہل سنت اس نیاز کا اہتمام کرتے ہیں۔اصلی علمائے سنت کا کہنا ہے کہ قادیانی و ہم نوا پہلے لوگوں کے دلوں سے اولیائے خدا کا عشق نکالتے ہیں اور پھر انھیں اسلام سے خارج کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک منت اور نیاز سے مسلمان اولیائے خدا اور دین اسلام سے جڑے رہتے ہیں۔ جبکہ فریق مخالف اولیائے خدا کے مزارات کو شرک کے ٹھکانے اور نذر و نیاز کو حرام کہتا ہے۔ ان کے نزدیک منت و نیاز کے مرتکب افراد مشرک ہیں اور ان سے نکاح و میل جول بھی جائز نہیں. [5] کونڈے[6]

حوالہ جات ترمیم

  1. امجد علی اعظمی (2017ء)۔ بہار شریعت۔ کراچی: مکتبۃ المدینہ۔ صفحہ: 74۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2017 
  2. ^ ا ب پ علامہ حسن علی میلسی۔ کونڈوں کی فضیلت بجواب کونڈوں کی حقیقت۔ کراچی: جمعیت اشاعت اہلسنت۔ صفحہ: 6-7-8 
  3. مفتی خلیل خان برکاتی، سنی بہشتی زیور (کتاب) حصہ دوم، صفحہ 176
  4. امامیہ جنتری 2012ء صفحہ نمبر 61
  5. http://www.alqalamonline.com/index.php/idarti/3568-495-rajab-k-koonde-ki-haqeeqat
  6. "کونڈے"۔ اخذ شدہ بتاریخ https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1080