نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ

نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (ہندی: राष्ट्रीय शैक्षिक अनुसंधान और प्रशिक्षण परिषद) (NCERT) حکومت ہند کا قائم کردہ ادارہ ہے جسے اسکولوں کی تعلیم سے جڑے معاملات پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مشورہ دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ یہ کونسل بھارت میں اسکولوں کی تعلیم سے متعلق تمام پالیسیوں پر کام کرتی ہے۔[1] اس کا بنیادی کام تعلیم اور سماجی بہبود کی وزارت کو بالخصوص اسکول کی تعلیم کے سلسلے میں مشورہ دینے اور پالیسی کا تعین میں مدد کرنے کا ہے۔ ان کے علاوہ این سی ای آر ٹی کے ذمہ دیگر فرائض بھی ہیں، مثلاً تعلیم کے میدان میں تحقیقی کاموں کا تعاون اور حوصلہ افزائی، اعلی تعلیم کی تربیت میں معاونت، اسکولوں کے طریقہ تعلیم میں ترقی اور تبدیلی کی تنفیذ، ریاستی حکومتوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو اسکول کی تعلیم سے متعلق مشورہ دینا اور اپنے کاموں کے لیے اشاعتی مواد اور تشہیر وغیرہ۔[2] اسی طرح بھارت میں تعلیم سے وابستہ تقریباً ہر کام میں این سی ای آر ٹی کی موجودگی کسی نہ کسی شکل میں رہتی ہے۔

نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ
مخففاین سی ای آر ٹی
قانونی حیثیتفعال
ہیڈکوارٹرنئی دہلی
Leaderپروفیسر کرشن کمار
ویب سائٹwww.ncert.nic.in

تاریخ

ترمیم

حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے 27 جولائی 1961ء کو سوسائیٹیز ریجسٹریشن ایکٹ (1860ء کا قانون XXI) کے تحت نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کے قیام کا فیصلہ کیا اور 1 ستمبر 1961ء سے اس پر کارروائی کا آغاز ہوا۔ اس کونسل میں پہلے سے موجود حکومت کے سات قومی اداروں کو ضم کیا گیا ہے، ان سات اداروں کے نام حسب ذیل ہیں:

  • مرکزی ادارہ برائے تعلیم
  • سینٹرل بیورو آف ٹیکسٹ بک ریسرچ
  • سینٹرل بیورو آف ایجوکیشنل اینڈ ووکیشنل گائیڈینس
  • ڈائرکٹوریٹ آف ایکسٹینشن پروگرامز فار سیکنڈری ایجوکیشن
  • نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بیسک ایجوکیشن
  • نیشنل فنڈامینٹل ایجوکیشن سینٹر
  • نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف آڈیو ویژول ایجوکیشن[3]

اہداف و مقاصد

ترمیم

کونسل کے بنیادی مقاصد حسب ذیل ہیں:

  1. قومی درسیات کا خاکہ، 2005ء کا نفاذ
  2. ابتدائی تعلیم کا فروغ
  3. تعلیم حرفت
  4. مخصوص ضرورتوں کے تحت گروہوں کی تعلیم
  5. بچپن کی تعلیم
  6. مسابقاتی تعلیم
  7. بچیوں کی تعلیم
  8. درس و تدریس کے تجربوں کی فراہمی
  9. اساتذہ کی تربیت میں ترقی
  10. طلبہ کے افکار کا ارتقا

اقدامات

ترمیم

این سی ای آر ٹی کے پاس ایک بڑا توسیعی منصوبہ ہے جس کی سرگرمیوں میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف ووکیشنل ایجوکیشن وغیرہ شریک ہیں۔ نیز دیہی اور پسماندہ علاقوں کے لیے بھی متعدد منصوبے متعارف کرائے گئے ہیں۔

یہ کونسل نیشنل ڈویلپمنٹ گروپ فار ایجوکیشنل انویشنز کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ کونسل کی جانب سے تربیتی سہولتوں بہم پہنچانے کا نظم ہوتا ہے جن کے لیے عموماً ورک شاپ اور دیگر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ نیز کونسل نے پہلی تا بارہویں جماعت کے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے متعدد موضوعات پر درسی کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ کونسل کی جانب سے سی بی ایس ای نصاب تعلیم کی نجی اور سرکاری اسکولوں میں استعمال ہونے والے سوالیہ پرچے اور کتابیں بھی شائع کی گئی ہیں۔

ای پاٹھ شالا کے نام سے ایک آن لائن نظام بھی قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد تعلیمی وسائل مثلاً درسی کتابوں، آڈیو، ویڈیو اور دیگر مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مواد کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہے۔ اس مواد تک موبائل فون اور ٹیبلیٹ (ای پب شکل میں) اور کمپیوٹر (فلپ بک کی شکل میں) سے مفت رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ان کے علاوہ محکمہ تعلیم نسواں (دی ڈپارٹمنٹ آف ویمن اسٹڈیز)، جو خواتین کی تعلیم کے میدان میں سرگرم ہے، بھی این سی ای آر ٹی کے ساتھ مصروف عمل ہے، یہ ادارہ پالیسی کی تبدیلیوں کے مشورے دیتا ہے۔ یہ محکمہ بھی مرکزی اور ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر تعلیم نسواں کے میدان میں گذشتہ دو دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔ ان کے علاوہ، بہت سے غیر سرکاری ادارے بھی این سی ای آر ٹی کے ساتھ مل کر تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں۔

تنازعات

ترمیم

کونسل کو آغاز ہی سے مختلف تنازعات کا سامنا رہا ہے جو آج تک جاری ہیں۔ عموماً تنازع اس بات کا رہا ہے کہ کونسل کی جانب سے ہندوستان کی تاریخ سازی کی جاری رہے اور اسے "زعفرانی رنگ" (یعنی اسباق کو ہندوتو کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے) دیا جا رہا ہے۔ خصوصاً ہندو قوم پرست ایجنڈا کے تحت کونسل کے کام پر دو بار تنازع پیدا ہوا: پہلی بار 1977ء سے 1980ء تک زیر اقتدار جنتا پارٹی کی حکومت کے تحت اور دوسری بار 1998ء سے 2004ء تک زیر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور میں۔ سنہ 2012ء میں اس ادارے پر آئین ہند کے ایک معمار ڈاکٹر امبیڈکر کے خلاف اپنی درسی کتابوں میں جارحانہ کارٹون شائع کرنے کا الزام لگا اور اسے آئین ہند کی بے حرمتی تصور کیا گیا۔ اس تنازع کے نتیجے میں این سی ای آر ٹی کے مشیران اعلیٰ یوگیندر یادو اور سہاس پالشیکر کو مستعفی اور حکومت سے معذرت طلب کرنی پڑی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. این سی ای آر ٹی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ livehindustan.com (Error: unknown archive URL)، ہندوستان لائیو 21 فروری 2010ء
  2. پہلی تا بارہویں جماعت کا نصاب تعلیم (این سی آر ٹی)، حکومت ہند کا قومی پورٹل
  3. تبدیلی کی سمت: این سی ای آر ٹی کے پچاس سال، این سی ای آر ٹی، 19 اگست 2011ء

بیرونی روابط

ترمیم