وامق عذرا

فارسی ادب کے دو رومانوی کردار

وامق اور عذرا فارسی ادب کے دو رومانوی کردار ہیں۔ ان دونوں کی عشقیہ داستان یونانی الاصل ہے۔[1]

ادبی پس منظر

ترمیم

قدیم ترین فارسی شاعر اور دربار غزنوی کے ملک الشعرا عنصری بلخی نے پانچویں صدی ہجری میں وامق اور عذرا کی داستان کو بحر متقارب میں مثنوی کی شکل میں منظوم کیا تھا۔ بیرونی نے عنصری کی نظم کا عربی ترجمہ کیا اور بعد کے زمانوں میں قتیلی بخارایی، جوشقانی، صلحی خراسانی، نامی اصفهانی وغیرہ نے عنصری کی پیروی میں اسی عنوان سے نظمیں لکھیں۔ [2]

یہ داستان یونانی سے سریانی اور بعد ازاں خسرو نوشیرواں کے عہد میں پہلوی زبان میں وارد ہوئی تھی۔ تاریخ میں ایسے بھی شواہد ملتے ہیں کہ عباسی عہد کے دوران خراسان کے امیر عبدالله بن طاہر کے حکم سے اس کے نسخے دریا برد کیے گئے تھے۔[3] عنصری کا کلام ایک مدت تک موجود رہا جسے جامی نے بھی تسلیم کیا پھر رفتہ رفتہ معدوم ہو گیا۔تاوقتیکہ پاکستان میں محمد شفیع نے اس مثنوی کے 372 اشعار[4] پر مشتمل چند اوراق دینی مرکز کے لیے وقف شدہ کتابوں سے ڈھونڈ نکالے۔اور 142 مزید اشعار جو روایات میں موجود تھے ایرانی ادیب سعید نفیسی نے انھیں فراہم کیے اور یوں وہ طبع ہوئے۔سعدی شیرازی نے اپنی غزل 613 میں اس داستان کا ذکر کیا ہے۔[5]

خلاصہ داستان

ترمیم

جزیرہساموس کے بادشاہ کی بیٹی عذرا، سوتیلی ماں کے ظلم سے بھاگ کر ساموس آنے والے خوبرو نوجوان وامق کو شہر کی عبادت گاہ میں دیکھتے ہی فریفتہ ہوجاتی ہے۔[6]عذرا کی وساطت سے وامق شاہی مہمان ہوا؛ وہاں محفل میں اس سے مختلف سوالات کیے گئے اور اس کی صلاحیتوں کو جانچا گیا۔ اس دوران دونوں کی آتش عشق مزید فروزاں ہوئی۔ اسی رات شدت عشق سے مغلوب وامق ، عذرا کی خوابگاہ کی طرف چلا جاتا ہے۔لیکن صرف در آستان محبوب کو چوم کر واپس آجاتا ہے۔ عذرا کی دایہ نے اس واقعے کی بادشاہ کو خبر کردی۔اور یوں ان دونوں کے بیچ دیوار فراق حائل ہو گئی۔ادھر دشمن نے شہر پر حملہ کر دیا جنگ میں بادشاہ ہلاک اور عذرا گرفتار و قید ہو گئی۔ وامق اور عذرا کی عبادت گاہ میں پہلی ملاقات کو عنصری اس طرح بیان کرتا ہے:

نگہ کرد بدان روی وامق درنگ کزو خیرہ شد آن بت آرای گنگ
سر و زلف مشکین او چوں گره فکندہ بگل کردہ بر بر زرہ
ہمی کرد عذرا بہ وامق نگاہ یکی شاہ دید از در و گاہ
دل ہر دو برنا برآمد بجوش تو گفتی تہی ماند جانشان ز ہوش
ز دیدار خیزد ہمہ رست خیز بر آید بمغز آتش مہر تیز

یونانی اصل

ترمیم

ماسوائے عذرا اور وامق کے ناموں کے دیگر تمام کردار، مقامات، واقعات اور مناظر کے نام و تذکار یونانی الاصل ہی ہیں۔ صرف دو مرکزی کرداروں یعنی عذرا اور وامق کے نام فارسی میں ڈھالے گئے۔ قدیم یونانی کتبوں اور نسخہ جات کے مطالعے کے بعد محققین مثلاً بواوتاس نے اخذ کیا کہ وامق اور عذرا کے یونانی نام بالترتیب متیوخوس اور پارتنوپ (انگریزی: Metiochus and Parthenope) تھے۔ [7]

قتیلی بخارایی

ترمیم

عبدالعزیزخان ازبک کے درباری شعرا میں سے دسویں صدی ہجری کے ایک شاعر قتیلی بخارایی نے اس عشقیہ داستان کو یعقوب آق قویونلو کے چچا زاد ظهیرالدین ابراهیم خان بن جهانگیر کی ترغیب پر 5573 اشعار کی صورت منظوم کیا۔اور ممدوح نے خود اسے سلطان یعقوب کو پیش کیا تھا۔ قتیلی نے اس نظم کے مرکزی خیال و خاکے کو نظامی گنجوری کی مثنوی وامق و عذرا سے اخذ کیا اور اپنے کلام کو سبک عراقی یعنی عراقی اسلوب شعر اور بحر لیلی مجنوں میں منظوم کیا۔

اس نظم کے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ عنصری کا کلام بوقت تحریر و تدوین نظم قتیلی کے پاس موجود نہیں تھا اور اسے صرف وامق اور عذرا کے نام معلوم تھے اور باقی واقعات داستان اس نے عنصری کی داستان کی سینہ بہ سینہ چلتی روایتوں کے بیان کرنے والوں سے سن کر لکھے تھے۔ اسی لیے اس کے کلام میں زمان و مکان، کردار اور طرز داستان عنصری سے مختلف ہے۔ [8] [9]

حوالہ جات

ترمیم
  1. علی اشرف صادقی، داستان وامق و عذرا و اصل یونانی آن
  2. حسن ذوالفقاری، مقایسه هفت روایت وامق و عذرا
  3. تذکره دولتشاه سمرقندی
  4. سجادی، ضیاءالدین. "داستانهای یونانی در ادب فارسی". دوره 15، ش 171 (دی 55): 4-2.
  5. سعدی، دیوان اشعار، غزلیات، غزل 613
  6. رادیو زمانه داستان‌های فارسی سده‌های میانه پروفسور شارل هانری دوفوشه‌کور http://archive.radiozamaneh.com/culture/khaak/2013/02/14/24286 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ archive.radiozamaneh.com (Error: unknown archive URL)
  7. The virgin and her lover ,TOMAS HAGG & BO UTAS
  8. قتیلی بخارایی (1392)۔ مدیران: برومند، ریاحی، پوراندخت، مهرانگیز۔ وامق و عذرا۔ تهران: گیسا۔ ISBN 978-600-6885-05-6 
  9. قتیلی بخارایی. پوراندخت، مهرانگیز برومند، ریاحی. وامق و عذرا. تهران: گیسا، 1392. شابک ‎978-600-6885-05-6.