عنصری
ابو القاسم حسن بن احمد عنصری بلخی فارسی گو شاعر ہیں، "عنصری بلخی" کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ 350ھ میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ امیر نصر، سلطان محمود غزنوی کے بھائی نے، انھیں غزنہ بلوا لیا۔ سلطان محمود غزنوی نے ان پر خصوصی توجہ دی اور انھیں ملک الشعرا کا خطاب دیا۔ عنصری نے 431ھ میں وفات پائی۔ عنصری کے دستیاب اشعار کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے۔ جو قصیدہ، غزل، رباعی، قطعہ، ترکیب بند و مثنوی پر مشتمل ہیں۔ ان کے بیشتر قصائد سلطان محمود غزنوی کی تعریف میں ہیں۔ عنصری اپنے قصیدوں اور غزلوں میں اصطلاحات حکمت و منطق کا استعمال کرتا ہے۔ عنصری کی بہترین مثنویاں وامق و عذرا، شادبہر و عین الحیاتت، سرخ بت و خنگ بت ہیں۔[1]
عنصری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 980ء بلخ |
وفات | سنہ 1039ء (58–59 سال) غزنی |
شہریت | ایران |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، تاجک زبان |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
اشعار کلام
ترمیمباد نوروزی ہمی در بوستان بتگر شود | تا ز صنعش ہر درختی لعبتی دیگر شود | |
باغ ہمچون کلبۂ بزاز پر دیبا شود | راغ ہمچون طبلۂ عطار پر عنبر شود | |
رویبند ہر زمینی حلۂ چینی شود | گوشوار ہر درختی رشتۂ گوہر شود | |
چون حجابی لعبتان خورشید را بینی بہ ناز | گہ برون آید ز میغ و گہ بہ میغ اندر شود | |
افسر سیمین فروگیرد ز سر، کوہ بلند | باز میناچشم و زیباروی و مشکینسر شود | |
عجب مدار کہ نامرد، مردی آموزد | از آن خجستہ رسوم و از آن خجستہ سِیَر | |
بہ چند گاہ دہد بوی عنبر آن جامہ | کہ چند روز بماند نہادہ با عنبر | |
دلی کہ رامش جوید نیابد آن دانش | سری کہ بالش جوید، نباید او افسر | |
ز زود خفتن و و از دیر خاستن ہرگز | نہ مُلک یابد مَرد و نہ بر ملوک، ظفر |