وجّا (انگریزی: Vijja) جسے ودیا اور ویجیکا 8ویں اور 9ویں صدی کی سنسکرت زبان کی شاعرہ تھی۔ ان کا تعلق موجودہ دور کے بھارت سے تھا۔ ان کے اشعار اور ابیات قرون وسطی کے سنسکرت ادب میں عموما دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔

نام اور شناخت ترمیم

وجّا (بکسر الواو) سنسکرت نام ہے جس کے کئی تلفظ ہیں اور ان کے کئی نام بھی ہیں۔ ماہر بشریات انھیں ودیا کہتے ہیں۔ شرن گدھرا پداتی انھیں پراکرت تلفظ وجاکا کہتے ہیں۔ ولبھ دیو کے ماہر بشریات بھی انھیں وجاکا ہی کہتے ہیں۔ کچھ قدیم متون میں وجاکا اور ویجیکا بھی آیا ہے۔[1]

وجاینکا اور ویجایا کی شناخت ترمیم

جالہانا کی سوکتی موکتاولی میں راج شیکھر کے الفاظ ہیں:[1]

ویجاینکا کارنات عورت ہے جو سرسوتی کی طرح حملہ آور ہوتی ہے۔ وہ کالی داس کی ہم پلہ ودربھ کی زبان کی ادیبہ ہے۔

سنسکرت کے متعدد متون میں اس کا نام ودیا یا وجا ہے جس کے معنی جانکاری یا سائنس ہے مگر جدید ادیبوں نے ودیا اور وجا کے ساتھ ویجینکا نام کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کے معنی فتح اور جیت کے ہیں۔[1]وجا کو کچھ لوگ وجایا بھتاریکا بھی کہتے ہیں جا کا عہد جو چالوکیہ سلطنت میں 650ء تا 656 رہی۔ چالوکیہ سلطنت کی حکومت جنوبی کے کارناٹ خطہ پر تھی۔[2]

وجا اپنی ایک نظم میں خود کو تعلیم کی دیوی سرسوتی کے مشابہ قرار دیتی ہے مگر وہ یہ بھی کہتی ہے سرسوتی کا رنگ صاف تھا جبکہ اس کا رنگ سانولا ہے۔ اسی نظم میں وجا جنوبی ہند کے علاقائی شاعر داندین کا بھی تذکرہ کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ داندین نے غلط بیان کیا ہے کہ سرسوتی مکمل گوری چٹی تھی۔[3][4]

مجھے نہیں جانتے؟ میں ویجیکا ہوں، پکا رنگ ہے میرا، نیل کمل کی پنکھڑی جیسی۔

زمانہ ترمیم

راج شیکھر کے مطابق وجا کا تعلق 10ویں صدی سے ہے اور پرمار بھوج نے اسے 11ویں صدی کی شاعرہ کہا ہے۔[5] اس کی ایک نظم میں 7ویں اور 8ویں صدی کے شاعر داندین کا تذکرہ ملتا ہے۔[6] ان تمام حقائق کی بنیاد پر اسے 8ویں یا 9ویں صدی کی شاعرہ کہا جا سکتا ہے۔[7]

شاعری ترمیم

وجا نے اپنی شاعری میں محبت، فطرت، موسموں کی تبدیلی، سمندر اور نسوانی حسن کو موضوع بنایا ہے۔[8] اس کی شاعری میں فصاحت سے لبریز گہرے تراثرات نظر آتے ہیں۔ وہ بڑے مصرعے لکھتی ہے جن میں نغمگی ہوتی ہے۔[4] اس کی اس طرح کی نظمیں سنسکرت کے شاعری مجموعوں میں موجود ہے۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ A. K. Warder 1994, p. 421.
  2. M. B. Padma 1993, p. 167.
  3. A. K. Warder 1994, pp. 421–422.
  4. ^ ا ب پ Supriya Banik Pal 2010, p. 152.
  5. Mohan Lal 1992, p. 4573.
  6. Supriya Banik Pal 2010, p. 152-153.
  7. Supriya Banik Pal 2010, p. 159.
  8. Supriya Banik Pal 2010, p. 153.