وسوبندھو ایک ممتاز بودھ اُستاد اور ہندوستان میں مہایان بدھ مت کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کرنے والے مفکرین میں سے ایک تھا۔ اگرچہ اُسے اور اُس کے بھائی کو بعد کے بودھیوں نے یوگاچار مکتبہ کے بانیوں کے طور پر سراہا، لیکن اُس کی یوگاچار سے پہلے کی تحریروں مثلاً ابھیدھرم اور اُس کی تفسیر ”ابھیدھرم کوش بھاشیہ“ کو شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔ اُس نے متعدد سوتروں کی شرحیں، منطق پر کتب، بھگتی شاعری اور فلسفیانہ مقالے بھی لکھے۔ ان میں سے کچھ ایک تحریریں اصلی سنسکرت صورت میں دست بردِ زمانہ سے بچی رہیں، لیکن بہت سی دیگر صرف چینی اور تبتی تراجم میں ملتی ہیں۔ وسوبندھو ایک کثیر الجہت مفکر تھا۔[1]

وسوبندھو
پیدائشچوتھی صدی عیسوی کا آخر
وفاتپانچویں صدی عیسوی کا نصف
پیشہبھکشو
وجۂ شہرتفلسفیانہ مکتب فکر یوگاچار کا شریک بانی۔

زندگی پر ماخذات

ترمیم

وسوبندھو کی زندگی کا اہم ترین اور واحد مکمل بیان چین میں یوگاچار فلسفے کے مرکزی مقلدین میں سے ایک پرمارتھ (499ء–569ء) نے "گرو وسوبندھو کی زندگی" کے زیر عنوان چینی زبان میں مرتب کیا تھا۔ یہ چینی تری پٹک میں محفوظ ہے اور 1904ء میں ترجمہ ہوا۔[2]

ابتدائی زندگی

ترمیم

وسوبندھو پُرش پور (موجودہ پشاور) میں پیدا ہوا، اس زمانے یہ شہر ریاست گندھارا کا حصہ تھا۔ تبتی مؤرخ تاراناتھ کے مطابق وسوبندھو کی پیدائش سے قبل اُس کا بڑا بھائی (اسنگ) بھکشو بن گیا تھا۔ وسوبندھو اور اسنگ کو آپس میں سوتیلا بھائی بھی بتایا جاتا ہے (کہ اسنگ باپ کشتریہ اور وسوبندھو کا باپ برہمن تھا)۔ وسوبندھو کا باپ درباری پروہت اور ویدوں کا عالم تھا۔ عین ممکن ہے کہ وہ شیلاد کے شک شہزادوں کے دربار میں عہدے دار ہو جو اُس وقت پُرش پور پر حکمران تھے۔ زندگی کے ابتدائی برسوں میں وسوبندھو نے ضرور اپنے باپ کے ذریعہ برہمنی روایت کے علاوہ نیائے اور ویشیشک سے تعارف حاصل کر لیا ہوگا۔ اُس کی فکر اِن دونوں نظام ہائے فکر سے متاثر ہے۔

نوجوان طالب علم وسوبندھو نے اساتذہ کو اپنی ذہانت اور حاضر جوابی سے بہت حیران کیا۔ پرمارتھ نے اُس کی استانی کا نام بدھ مترا لکھا ہے۔ تاہم ہیون سانگ نے اُستانی بدھ مِترا کا کبھی ذکر نہیں کیا بلکہ استاد کا نام منورتھ لکھا۔ اُس دور کے گندھارا غالب بودھی مکتب فکر ویشیشک (جسے سرواستیواد بھی کہتے ہیں) تھا۔ وسوبندھو سرواستیواد سلسلے میں داخل ہوا اور وِبھاشکوں کے متکلمانہ نظام کا مطالعہ کیا۔ ابتدا میں وہ مہا وبھاش سے کافی متاثر ہوا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وبھاشک مابعد الطبیعیات کی کارآمد حیثیت پر شکوک کا شکار ہو گیا۔ اسی دور میں وسوبندھو شاید اپنے استاد منورتھ کے ذریعہ بودھیوں کے ایک گروہ سوترانتکوں سے متعارف ہوا جو بدھ کے اقوال کے سوا ہر ایک چیز کو مسترد کرتے تھے۔ پُرش پور میں سوترانتک روایت بہت مضبوط ہونے کا امر اس خیال سے حمایت یافتہ ہے کہ دوسری صدی عیسوی کے فلسفی دھرم ترات نے یہیں جنم لیا۔ وِبھاشک مکتب فکر کا اصل مرکز گندھارا کی بجائے کشمیر تھا جہاں کے حکمران اہلِ گندھارا کو نیم زندیق سمجھتے تھے۔ چنانچہ وسوبندھو نے وبھاشک تعلیمات کا قریب سے مطالعہ کرنے کی خاطر دیوانے کے بھیس میں کشمیر جانے کا فیصلہ کیا۔ وسوبندھو چار سال تک کشمیر میں مختلف اساتذہ کے پاس مطالعہ کرنے کے بعد واپس پُرش پور آیا۔

اُس دور میں وہ کسی بھی مخصوص سلسلے وابستہ نہ رہا۔ وہ بدھ مت کے مختلف درس دے کر زندگی گزارنے کے ذرائع حاصل کرنے لگا۔ روایت کے مطابق وہ وِبھاشک فلسفہ پر درس دیتا اور رات کے دوران اُس درس کو شعروں میں ڈھال لیتا۔ اِن چھ سو سے زائد نظموں (کارِکا) میں سارے نظام فکر کا خلاصہ موجود ہے۔ اُس نے اپنی کتاب کا نام ابھیدھرم کوش (ابھیدھرم کا خزانہ) رکھا۔[3]

حوالہ جات

ترمیم