وفد بکر بن وائل
وفد بکر بن وائل جمادی الاولیٰ 8ھ میں بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا
اس وفد میں بشیر بن الخصاصیہ،عبد اللہ بن مرتد،حسان بن حوط اورعبد اللہ بن اسود بن شہاب بن عوف بن عمرو بن الحارث بن سدوس شامل تھے یہ یمامہ میں رہتے تھے وہاں سے ہجرت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک توشہ دان لائے تو آپ نے ان کے لیے برکت کی دعا کی۔[1]
جب یہ اپنے کام سے فارغ ہوئے توان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا آپ قس بن ساعدہ کو پہچانتے ہیں؟ اس کا کیا ہوا؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوبتایا گیاوہ فوت ہو گیا۔ یہ قبیلہ ایاد کا ایک شخص ہے جو جو زمانہ جاہلیت میں حنفی(دین ابراہیم کا پیروکار)تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا گویا کل کی بات ہو میں اب بھی اسے دیکھ رہا ہوں وہ اس وقت عکاظ پہنچا جب لوگ جمع تھے وہ ان لوگوں سے باتیں کرنے لگا کیا تم میں سے کسی کو وہ باتیں یاد ہیں تو ایک اعرابی بولا مجھے یاد ہیں اس نے کہا تھا
"لوگو میرے پاس جمع ہو جاؤاور میری باتیں کان لگا کر سنوپھر اس نے کائنات کی باتیں بتا کر کہا تھا آج پہاڑ سربلند کیے کھڑے ہیں، دریا بہہ رہے ہیں، ستارے گردش کر رہے ہیں، سمندروں میں کوئی تغیر نہیں، راتیں اور دن آ جا رہے ہیں، لیکن ایک دن جو آیا ہے اسے جانا ہے یہ بات اٹل ہے، اگر تم کھڑے رہنا چاہو تو کھڑے رہو اور سونا چاہتے ہو تو سو جاؤ ،لیکن موت سب کا مقدر ہے اور سب کو ایک دن خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے،میں دیکھتا ہوں جو جاتے ہیں وہ لوٹ کر نہیں آتے،آسمانوں میں خیر ہے اور زمین جائے عبرت ہے۔ اس کا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ کا جو دین ہے وہ قس نے اختیار کیا اور اللہ اس سے راضی ہو گیا تھا الحمد للہ کہ تم بھی اسی دین پر چل رہے ہو جس پر قس بن ساعدہ ایادی تھا"[2]
جس کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا
حَسْبُكَ، فَإِنَّ الْقُسَّ بْنَ سَاعِدَةَ كَانَ أُمَّةً، يَبْعَثُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ أُمَّةً وَحْدَهُ
کافی بے شک قس بن ساعدہ ایک امت تھا اللہ اسے قیامت کے دن اکیلا بطور امت اٹھائے گا۔
حسان کی اولاد میں سے کسی نے یہ شعر پڑھا۔
أَنَا ابْنُ حَسَّانَ بْنِ خُوْطٍ وَأَبِي ... رَسُولُ بَكْرٍ كُلِّهَا إِلَى النَّبِيّ
میں حسان بن حوط کا بیٹا ہوں میرے والد تمام قبیلہ بکر کی طرف سے قاصد بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئے[3]