وفد دوس سنہ میں بارگاہ رسالت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا۔
وفد دوس کے قائد طفیل بن عمرو دوسی تھے یہ ہجرت سے قبل ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔ انھوں نے اپنی قوم کو دعوت دی وہ بھی اسلام لے آئی یہ 70 یا 80 آدمیوں کا وفد تھا جن میں زیادہ تر طفیل بن عمرو کے اپنے قرابت دار تھے ان میں ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن ازیہر دوسی بھی تھے رسول اللہ اس وقت غزوہ خیبر میں تھے یہ لوگ وہاں پر ہی حاضر ہوئے انھیں خیبر کے مال غنیمت سے بھی حصہ دیا گیا اور ساتھ ہی مدینہ منورہ آئے۔ مدینہ میں انھیں حرۃ الدجاج میں ٹھہرایا گیا۔
طفیل بن عمرو کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا ہی عجیب ہے یہ ایک بڑے ہوش مند اور شعلہ بیان شاعر تھے۔ یہ کسی ضرورت سے مکہ آئے تو کفار قریش نے ان سے کہہ دیا کہ خبردار تم محمد ﷺ سے نہ ملنا اور ہرگز ہرگز ان کی بات نہ سننا۔ ان کے کلام میں ایسا جادو ہے کہ جو سن لیتا ہے وہ اپنا دین و مذہب چھوڑ بیٹھتا ہے اور عزیز و اقارب سے اس کا رشتہ کٹ جاتا ہے۔ یہ کفار مکہ کے فریب میں آ گئے اور اپنے کانوں میں انھوں نے روئی بھر لی کہ کہیں قرآن کی آواز کانوں میں نہ پڑ جائے۔ لیکن ایک دن صبح کو یہ حرم کعبہ میں گئے تو رسول اﷲ ﷺ فجر کی نماز میں قرأ ت فرما رہے تھے ایک دم قرآن کی آواز جو ان کے کان میں پڑی تو یہ قرآن کی فصاحت و بلاغت پر حیران رہ گئے اور کتابِ الٰہی کی عظمت اور اس کی تاثیر ربانی نے ان کے دل کو موہ لیا۔ جب حضور اکرم ﷺ کاشانہ نبوت کو چلے تو یہ بے تابانہ آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور مکان میں آ کر آپ کے سامنے مودبانہ بیٹھ گئے اور اپنا اور قریش کی بدگوئیوں کا سارا حال سنا کر عرض کیا کہ خدا کی قسم! میں نے قرآن سے بڑھ کر فصیح و بلیغ آج تک کوئی کلام نہیں سنا۔ ﷲ! مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ حضور ﷺ نے اسلام کے چند احکام ان کے سامنے بیان فرما کر ان کو اسلام کی دعوت دی تو وہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
پھر انھوں نے درخواست کی یا رسول ﷲ! ﷺ مجھے کوئی ایسی علامت و کرامت عطا فرمائیے جس کو دیکھ کر لوگ میری باتوں کی تصدیق کریں تا کہ میں اپنی قوم میں یہاں سے جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ ﷺ نے دعا فرما دی کہ الٰہی! تو ان کو ایک خاص قسم کا نور عطا فرما دے۔ چنانچہ اس دعائے نبوی کی بدولت ان کو یہ کرامت عطا ہوئی کہ ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کے مانند ایک نور چمکنے لگا۔ مگر انھوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ نور میرے سر میں منتقل ہو جائے۔ چنانچہ ان کا سر قندیل کی طرح چمکنے لگا۔ جب یہ اپنے قبیلہ میں پہنچے اور اسلام کی دعوت دینے لگے تو ان کے ماں باپ اور بیوی نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کی قوم مسلمان نہیں ہوئی بلکہ اسلام کی مخالفت پر تل گئی۔ یہ اپنی قوم کے اسلام سے مایوس ہوکر پھر حضور ﷺ کی خدمت میں چلے گئے اور اپنی قوم کی سرکشی اور سرتابی کا سارا حال بیان کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم پھر اپنی قوم میں چلے جاؤ اور نرمی کے ساتھ ان کو خدا کی طرف بلاتے رہو۔ چنانچہ یہ پھر اپنی قوم میں آ گئے اور لگاتار اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ ستر یا اسی گھرانوں میں اسلام کی روشنی پھیل گئی اور یہ ان سب لوگوں کو ساتھ لے کر خیبر میں تاجدار دو عالم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آپ ﷺنے خوش ہو کر خیبر کے مال غنیمت میں سے ان سب لوگوں کو حصہ عطا فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس وفد سے فرمایا
"اے برادر دوس اسلام غریب ہونے کی حالت میں شروع ہوا اور اسلام غریب ہی ہو جائے گا جو اللہ کی تصدیق کرے گا نجات پا جائے گا اور جو کسی اور طرف مائل ہو گا برباد ہو گا، تمھاری قوم میں سب سے بڑے ثواب والا وہ شخص ہے جو صدق میں سب سے بڑا ہو اور حق عنقریب باطل پر غالب ہو جائے گا"[1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سیرتِ مصطفی مؤلف، عبد المصطفیٰ اعظمی، صفحہ 520 - 522، ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی
  2. طبقات ابن سعد، حصہ دوم، صفحہ 94 - 95، محمد بن سعد، نفیس اکیڈمی کراچی