وفد بنو سلیم بن منصور
وفد بنو سلیم بن منصور(وفد سلیم) 8ھ میں بارگاہ رسالت میں آیا۔
قبیلہ بنوسلیم کا ایک شخص مسمی قیس بن نسیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ سے قرآن سنا اور چند سوالات کیے جن کا جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عطا فرمایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہو گئے اور پھر اپنی قوم میں واپس گئے تو لوگوں سے کہا
” میں نے روم و فارس کے فصحاء و بلغاء کے کلام سنے ہیں، بہت سے کاہنوں کے کلمات سننے کا تجربہ ہوا ہے، حمیر کے مقالات سنتا رہا ہوں، مگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام کی مثل میں نے آج تک کہیں نہیں سنا، تم سب میری بات مانو اور ان کا اتباع کرو۔ “
انہی کی تحریک و تلقین پر ان کی قوم کے ایک ہزار آدمی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں مقام قدید میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ “ [1]
ان میں عباس بن مرداس،انس بن عباس بن رغل،راشد بن عبد ربہ بھی شامل تھے اسلام لانے کے بعد عرض کی کہ آپ ہمیں مقدمۃ الجیش میں کر دیجئے،ہمارا جھنڈا سرخ رکھیے اور ہمارا شعار مقدم رکھیے آپ نے یہی کیا۔
یہ لوگ آپ کے ساتھ فتح مکہ ،حنین اور طائف میں حاضر ہوئے آپ نے راشد بن عبد ربہ کو مقام رہاط عطا فرمایا اس میں ایک چشمہ تھاجو عین الرسول کہلاتا تھا۔ راشد بنو سلیم کے بت کے مجاور تھے جب بارگاہ نبوی میں آئے تو پوچھا نام کیا ہے تو جواب دیا غادی بن عبد العزیٰ آپ نے فرمایا تمھار نام راشد بن عبد ربہ ہے(غادی کے معنی گمراہ اور راشد کے معنی ہدایت یافتہ)آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا عرب کے دیہاتوں میں بہترین خیب رہے اور بنو سلیم میں سب سے بہتر راشد ہیں آپ نے انھیں اپنی قوم کا علمبردار بنایا۔ [2]