وفد فزارہ غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد سنہ میں بارگاہ رسالت میں آیا"
بنو فزارہ کے تقریبا 14 یا 20 اشخاص حاضر ہوئے ان میں خارجہ بن حصن، حر بن قیس بن حصن (حر بن قیس سب سے چھوٹے تھے) بھی تھے یہ لوگ عیینہ بن حصن فزاری کی قوم کے تھے۔ انھوں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے علاقوں کا حال پوچھا، انھوں نے کہا، قحط سے ہم لوگ تباہ ہو گئے، آپ نے باران رحمت کی دعا کی۔[1]

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جمعہ کے دن منبر پر دعا فرما دی اور فوراً ہی بارش ہونے لگی اور لگاتار ایک ہفتہ تک موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ جاری رہا پھر دوسرے جمعہ کو جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے۔ ایک اعرابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چوپائے ہلاک ہونے لگے اور بال بچے بھوک سے بلکنے لگے اور تمام راستے منقطع ہو گئے۔ لہٰذا دعا فرما دیجئے کہ یہ بارش پہاڑوں پر برسے اور کھیتوں اور بستیوں پر نہ برسے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرما دی تو بادل شہر مدینہ اور اس کے اطراف سے کٹ گیا اور آٹھ دن کے بعد مدینہ میں سورج نظر آیا۔[2] یزید بن عبید السلمی سے روایت کیا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غزوہ تبوک سے لوٹے تو بنو فزارہ کا وفد آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہم کو بارش عطا فرمائیں اور ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کیجئے اور آپ کا رب آپ کی سفارش قبول فرمائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔ افسوس ہے تیرے لیے میں سفارش کروں گا اپنے رب کے پاس۔ پس کون ہے جو ہمارے رب کی طرف سفارش کرے۔ نہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ تعالیٰ عظیم ذات ہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے زیادہ وسیع ہے اور وہ چڑ چڑاتی ہے اس کی عظمت اور جلال سے جیسے نیا پالان چڑچڑاتا ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سیرت مصطفے ٰ، محمد ادریس کاندھلوی، صفحہ 133، کتب خانہ مظہری کراچی
  2. سیرتِ مصطفی، مؤلف عبد المصطفیٰ اعظمی، صفحہ512، ناشر مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
  3. تفسیر در منثور جلال الدین سیوطی سورۃ البقرہ آیت 255