وفد نجران
وفد نجران عام خیال یہ ہے کہ 9ھ میں آیا جبکہ ابن عاشور کی تحقیق کے مطابق 3ھ میں بارگاہ رسالت میں حاضرہوا[1]
نجران کے نصرانیوں نے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں اپنے ساٹھ آدمی بھیجے تھے جن میں چودہ شخص ان کے سردار تھے جن کے نام یہ ہیں، عاقب جس کا نام عبد المسیح تھا، سید جس کا نام ایہم تھا، ابو حارثہ بن علقمہ جو بکر بن وائل کا بھائی تھا اور اوث بن حارث، زید، قیس، یزید اور اس کے دونوں لڑکے اور خویلد اور عمرو، خالد، عبد اللہ اور محسن یہ سب چودہ سردار تھے لیکن پھر ان میں بڑے سردار تین شخص تھے عاقب جو امیر قوم تھا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اور صاحب مشورہ تھا اور اسی کی رائے پر یہ لوگ مطمئن ہوجاتے تھے اور سید جو ان کا لاٹ پادری تھا اور مدرس اعلیٰ تھا یہ بنوبکر بن وائل کے عرب قبیلے میں سے تھا، لیکن نصرانی بن گیا تھا اور رومیوں کے ہاں اس کی بڑی آؤ بھگت تھی اس کے لیے انھوں نے بڑے بڑے گرجے بنا دیے تھے اور اس کے دین کی مضبوطی دیکھ کر اس کی بہت کچھ خاطر و مدارات اور خدمت و عزت کرتے رہتے تھے یہ شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صفت و شان سے واقف تھا اور اگلی کتابوں میں آپ کی صفتیں پڑھ چکا تھا دل سے آپ کی نبوت کا قائل تھا لیکن نصرانیوں میں جو اس کی تکریم و تعظیم تھی اور وہاں جو جاہ و منصب اسے حاصل تھا اس کے چھن جانے کے خوف سے راہ حق کی طرف نہیں آتا تھا، غرض یہ وفد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا آپ اس وقت عصر کی نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے یہ لوگ نفیس پوشاکیں پہنے ہوئے اور خوبصورت نرم چادریں اوڑھے ہوئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بنو حارث بن کعب کے خاندان کے لوگ ہوں صحابہ کہتے ہیں ان کے بعد ان جیسا باشوکت وفد کوئی نہیں آیا، ان کی نماز کا وقت آگیا تو آپ کی اجازت سے انھوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے مسجد نبوی میں ہی اپنے طریق پر نماز ادا کر لی۔ بعد نماز کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کی گفتگو ہوئی ادھر سے بولنے والے یہ تین شخص تھے حارثہ بن علقمہ، عاقب یعنی عبد المسیح اور سید یعنی ایہم یہ گو شاہی مذہب پر تھے لیکن کچھ امور میں اختلاف رکھتے تھے۔ حضرت مسیح کی نسبت ان کے تینوں خیال تھے یعنی وہ خود اللہ جل شانہ ہے اور اللہ کا لڑکا ہے اور تین میں کا تیسرا ہے، اللہ ان کے اس ناپاک قول سے مبرا ہے اور بہت ہی بلند و بالا، تقریباً تمام نصاریٰ کا یہی عقیدہ ہے، مسیح کے اللہ ہونے کی دلیل تو ان کے پاس یہ تھی کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتا تھا اور اندھوں اور کوڑھیوں اور بیماروں کو شفا دیتا تھا، غیب کی خبریں دیتا تھا اور مٹی کی چڑیا بنا کر پھونک مار کر اڑا دیا کرتا تھا اور جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ساری باتیں اس سے اللہ کے حکم سے سرزد ہوتی تھیں اس لیے کہ اللہ کی نشانیاں اللہ کی باتوں کے سچ ہونے پر اور حضرت عیسیٰ کی نبوت پر مثبت دلیل ہوجائیں، اللہ کا لڑکا ماننے والوں کی حجت یہ تھی کہ ان کا بہ ظاہر کوئی باپ نہ تھا اور گہوارے میں ہی بولنے لگے تھے، یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ ان سے پہلے دیکھنے میں ہی نہیں آئی تھیں (اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اللہ کی قدرت کی نشانیاں تھیں تاکہ لوگ اللہ کو اسباب کا محکوم اور عادت کا محتاج نہ سمجھیں وغیرہ۔) اور تین میں تیسرا اس لیے کہتے تھے کہ اس نے اپنے کلام میں فرمایا ہے ہم نے کیا، ہمارا امر، ہماری مخلوق، ہم نے فیصلہ کیا وغیرہ پس اگر اللہ اکیلا ایک ہی ہوتا تو یوں نہ فرماتا بلکہ فرماتا میں نے کیا، میرا امر، میری مخلوق، میں نے فیصلہ کیا وغیرہ پس ثابت ہوا کہ اللہ تین ہیں خود اللہ رب کعبہ اور عیسیٰ اور مریم (جس کا جواب یہ ہے کہ ہم کا لفظ صرف بڑائی کے لیے اور عظمت کے لیے ہے۔) اللہ تعالیٰ ان ظالموں منکروں کے قول سے پاک و بلند ہے، ان کے تمام عقائد کی تردید قرآن کریم میں نازل ہوئی، جب یہ دونوں پادری حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بات چیت کرچکے تو آپ نے فرمایا تم مسلمان ہوجاؤ انھوں نے کہا ہم تو ماننے والے ہیں ہی، آپ نے فرمایا نہیں نہیں تمھیں چاہئیے کہ اسلام قبول کرلو وہ کہنے لگے ہم تو آپ سے پہلے کے مسلمان ہیں فرمایا نہیں تمھارا یہ اسلام قبول نہیں اس لیے کہ تم اللہ کی اولاد مانتے ہو صلیب کی پوجا کرتے ہو خنزیر کھاتے ہو۔ انھوں نے کہا اچھا پھر یہ تو فرمائیے کہ حضرت عیسیٰ کا باپ کون تھا؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو اس پر خاموش رہے اور سورہ آل عمران کی شروع سے لے کر آخر تک کی آیتیں ان کے جواب میں نازل ہوئیں،[2] ان لوگوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کنواری مریم کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس کو آیت مباہلہ کہتے ہیں کہ
اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ اَلْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الْمُمْتَرِیۡنَ فَمَنْ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَ نَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَکُمْ ۟ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ (آل عمران:59۔61)
بے شک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام ) کی مثال اﷲ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی طرح ہے ان کو مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہو جا وہ فوراً ہو جاتا ہے (اے سننے والے) یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تم شک والوں میں سے نہ ہونا پھر (اے محبوب) جو تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمھیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تمھارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمھاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمھاری جانوں کو پھر ہم گڑگڑا کر دعا مانگیں اور جھوٹوں پرا ﷲ کی لعنت ڈالیں۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب ان لوگوں کو اس مباہلہ کی دعوت دی تو ان نصرانیوں نے رات بھر کی مہلت مانگی۔ صبح کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حسن، حسین، علی، فاطمہ کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لیے کاشانہ نبوت سے نکل پڑے مگر نجران کے نصرانیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور جزیہ دینے کا اقرار کرکے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صلح کر لی۔[3][4]
جب ان کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تو انھوں نے کہا ہم غور و فکر کر لیں۔ چنانچہ عاقب جو صاحب رائے تھا اس نے کہا اے مسیحیو ! تم قسم بخدا جان چکے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبی مرسل ہیں اور جب کسی قوم نے کسی پیغمبر سے مباہلہ کیا تو ان کا بڑا بچا اور نہ چھوٹا۔ اگر تم نے مباہلہ کیا تو تم ضرور ہلاک ہوجاؤ گے۔ پس اگر تم اپنے دین کی محبت میں انکار کرتے ہو تو ان سے معاہدہ صلح کر کے اپنے علاقے کی طرف لوٹ چلو۔ پس وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں۔ اس حالت میں آئے کہ آپ نے حسین کو گود میں اٹھا یا ہوا تھا اور حسن کا ہاتھ پکڑنے والے تھے فاطمہ آپ کے پیچھے چلنے والی تھیں جبکہ علی ان کے پیچھے تھے۔ اور آپ کہہ رہے تھے۔ جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ اس پر نجران کے پادری نے کہا اے وفد نجران! میں اپنے سامنے ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ان کی دعا سے پہاڑ اپنی جگہ سے زائل ہو جائے گا۔ پس تم ان سے مباہلہ نہ کرو۔ ورنہ تم ہلاک ہو جاؤ گے۔ اور سطح زمین پر کوئی ایک مسیحی بھی باقی نہ رہے گا۔ اس پر مسیحیوں نے کہا اے ابو القاسم ! ہم نے رائے قائم کی ہے کہ مباہلہ نہ کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دو ہزار حُلّے ہر سال ادا کرنے پر ان سے صلح کرلی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ اہل نجران پر ہلاکت لٹک رہی تھی۔ اگر وہ مباہلہ کرتے تو مسخ ہو کر بندر و سور بن جاتے۔[5]