وفد کنانہ
وفد کنانہ 9ھ میں بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا۔
اس وفد کے امیر کارواں واثلہ بن اسقع تھے۔ بعض جگہ اس وفد کا نام وفد واثلہ بن الاسقع اللیثی بھی لکھا گیا یہ سب لوگ دربار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اس وقت آئے جب آپ غزوہ تبوک کی تیاری فرما رہے تھے آپ نے صبح کی نماز ساتھ ادا کی آپ نے پوچھا تم کون ہو؟ تمھیں کیا چیز لائی ہے؟اور تمھاری حاجت کیا ہے؟انھوں نے اپنا نسب بتایا اور کہا کہ آپ کی خدمت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ لہذا جو میں پسند کروں اس پر مجھ سے بیعت لے لیجئے آپ نے ان سے بیعت لی۔ وہ جب اپنے گھر والوں میں واپس گئے تو ان کے والد نے کہا بخدا میں تم سے بات نہیں کروں گا اور سواری مہیا کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ ان کی بہن نے گفتگو سنی تو ایمان لے آئیں اور ان کا سامان درست کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس واپس آئے تو پتہ چلا کہ آپ تبوک روانہ ہو چکے انھوں نے کہا کہ ہے جو مجھے بھی ساتھ سوار کرکے لے چلے میرا مال غنیمت اس کا ہوگا کعب بن عجرہ نے انھیں اپنے ساتھ اونٹ پر سوار کر لیا، یہاں تک کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ملا دیا اور یہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں خالد بن ولید کے ساتھ اکیدر کی طرف بھیجا وہاں سے جب مال غنیمت حاصل ہو تو انھوں نے کعب بن عجرہ کو دیا لیکن انھوں نے واپس کر دیا کہ میں نے اللہ کی رضا کے لیے آپ کو سوار کیا تھا۔[1][2]
واثلہ بن اسقع کے بارے
ترمیمواثلہ بن اسقع بیعت اسلام کرکے جب اپنے وطن میں پہنچے تو ان کے باپ نے ان سے ناراض و بیزار ہو کر کہہ دیا کہ میں خدا کی قسم! تجھ سے کبھی کوئی بات نہ کروں گا۔ لیکن ان کی بہن نے صدق دل سے اسلام قبول کر لیا۔ یہ اپنے باپ کی حرکت سے رنجیدہ اور دل شکستہ ہو کر پھر مدینہ منورہ چلے آئے اور جنگ تبوک میں شریک ہوئے اور پھر اصحاب صفہ کی جماعت میں شامل ہو کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کرنے لگے۔ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد یہ بصرہ چلے گئے۔ پھر آخر عمر میں شام گئے اور 85ھ میں شہر دمشق میں وفات پائی۔[1][2]