وفد بنو ہلال بن عامر مدینہ منورہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا
اس وفد کو وفد ہلال بن عامر بھی کہا جاتا ہے
اس وفد میں عبد عوف بن اصرم بن عمرو بن شعیبہ بن ہزم بھی تھے جو قبیلہ رؤیبہ سے تعلق رکھتے تھے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نام پوچھا تو اس کے جواب میں فرمایا تم عبد اللہ ہو۔ قبیصہ بن مخارق نے اپنی قوم کے قرض اتارنے کے لیے مدد طلب کی اس کے جواب میں فرمایا جب صدقات آئیں گے تمھیں دیا جائے گا اس وفد کے لوگوں نے بھی دربار نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اس وفد میں زیاد بن عبدﷲ بھی تھے یہ مسلمان ہو کر دندناتے ہوئے ام المؤمنین بی بی میمونہ کے گھر میں داخل ہو گئے کیونکہ وہ ان کی خالہ تھیں۔
یہ اطمینان کے ساتھ اپنی خالہ کے پاس بیٹھے ہوئے گفتگو میں مصروف تھے جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکان میں تشریف لائے اور یہ پتا چلا کہ زیاد بن عبد اﷲ ام المؤمنین کے بھانجے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے ازراہ شفقت ان کے سر اور چہرہ پر اپنا نورانی ہاتھ پھیر دیا۔ اس دست مبارک کی نورانیت سے زیاد بن عبد اﷲ کا چہرہ اس قدر پر نور ہو گیا کہ قبیلہ بنی ہلال کے لوگوں کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم لوگ زیاد بن عبد ﷲ کے چہرہ پر ہمیشہ ایک نور اور برکت کا اثر دیکھتے رہے۔
اس پر علی بن زیاد شاعر نے کہا
يَا ابْنَ الَّذِي مَسَحَ النَّبِيُّ بِرَأْسِهِ ... وَدَعَا لَهُ بِالْخَيْرِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ
اے اس شخص کے بیٹے جس کے سر پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہاتھ پھیرا اور مسجد میں اس کے لیے دعا خیر فرمائی
أعني زيادا لا أريد سواءه ... من عائر أَوْ مُتْهِمٍ أَوْ مُنْجِدِ
میری مراد زیاد سے ہے اس کے علاوہ کوئی مراد نہیں چاہے وہ غور کا ہو تہامہ کا ہو یا نجد کا
مَا زَالَ ذَاكَ النُّورُ فِي عِرْنِينِهِ ... حَتَّى تَبَوَّأَ بَيْتَهُ فِي الْمُلْحَدِ
یہ نور ان کے چہرے پر چمکتا رہا یہاں تک کہ خانہ نشین ہو کر آخر قبر میں چلے گئے۔[1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سیرتِ مصطفی مؤلف، عبد المصطفیٰ اعظمی، صفحہ 514، ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی
  2. طبقات ابن سعد، حصہ دوم صفحہ 61 - 62، محمد بن سعد، نفیس اکیڈمی کراچی