میکانیکی طریقے سے وولٹیج بڑھانے کا پہلا آلہ 1872 میں Augusto Righiنے ہندوستانی ربڑ کی بیلٹ کی مدد سے بنایا تھا جس نے ترقی پا کر Van de Graaff generator کی شکل اختیار کر لی۔

وان ڈی گراف جنیریٹر میں بہت زیادہ وولٹیج کی مدد سے بننے والا شرارہ۔
انسولیٹیڈ گراونڈ پر کھڑی لڑکی کے بال ہائی وولٹیج کی وجہ سے کھڑے ہو گئے ہیں۔

وولٹیج دگنا کرنے والا ریکٹی فائر ترمیم

 
چار ڈائیوڈ سے بننے والے اس ریکٹی فائر میں جب سوئچ آف ہوتا ہے تو یہ فل ویو (full wave) ریکٹی فائر کی طرح کام کرتا ہے اور چاروں ڈائیوڈ میں سے کرنٹ گزرتا ہے۔ لیکن جب سوئچ آن کیا جاتا ہے تو حاصل ہونے والی ڈی سی کی وولٹیج دوگنی ہو جاتی ہے اور صرف اوپر کے دو ڈائیوڈ میں سے کرنٹ گزرتا ہے۔

اے سی سے ڈی سی جنیریٹر ترمیم

وولٹیج ملٹیپلائر (voltage multiplier) سے مراد ایسے برقی سرکٹ ہوتے ہیں جو کم وولٹیج کی اے سی (آلٹرنیٹنگ کرنٹ) کو زیادہ وولٹیج کی ڈی سی ( ڈائیریکٹ کرنٹ) میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اسٹیپ اپ (step up) ٹرانسفورمر بھی کم وولٹیج کی اے سی کو زیادہ وولٹیج کی اے سی میں تبدیل کر دیتا ہے جسے پھر ڈائیوڈ کی مدد سے ڈی سی بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن عام طور پر ٹرانسفورمر کا استعمال مہنگا پڑتا ہے۔ وولٹیج ملٹی پلائیر میں عام طور پر کئی ڈائیوڈ اور کیپیسٹر استعمال ہوتے ہیں۔
وولٹیج ملٹی پلائر کا یہ سرکٹ سب سے پہلے سوئزرلینڈ کے طبیعیات دان Heinrich Greinacher نے بنایا تھا مگر یہ Villard کے سرکٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ 1932 میں کوکروفٹ اور والٹن نامی سائنس دانوں نے اس کی مدد سے دنیا میں پہلی دفعہ کسی ایٹم کے مرکزے کو توڑنے میں کامیابی حاصل کری جس پر انھیں 1951 میں نوبل انعام ملا (انھوں نے اس کی مدد سے لیتھیئم کا مرکزہ توڑا تھا)۔ اس وقت سے یہ کوکروفٹ والٹن جنریٹر بھی کہلانے لگا۔ یہ سرکٹ آج بھی ایکس رے مشینوں، فوٹوکاپیئر اور ٹی وی میں استعمال ہوتا ہے۔

 
5 مرحلوں پر مشتمل بغیر ٹرانسفارمر وولٹیج 10 گنا بڑھانے کا سرکٹ۔ اسی انداز میں مزید ڈائیوڈ اور کیپیسیٹر کا اضافہ کر کے آوٹ پٹ وولٹیج کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر ان پُٹ وولٹیج 220 وولٹ اے سی ہو تو ہر کیپیسٹر پر 622 وولٹ ہوں گے اور آوٹ پٹ وولٹیج 3110V ہو گی۔ صرف پہلے (انتہائی بایں)کیپیسٹر پر 311 وولٹ بنیں گے۔
 
30 لاکھ وولٹ کا کوکروفٹ والٹن سرکٹ جو 1937 میں برلن میں بنایا گیا تھا۔

ڈی سی سے ڈی سی جنیریٹر ترمیم

کم وولٹیج کی ڈی سی سے زیادہ وولٹیج کی ڈی سی بنانے والے سرکٹوں میں سب سے آسان مارکس جنریٹر (Marx generator) ہے۔ اس میں ڈائیوڈ استعمال نہیں ہوتے بلکہ مزاحم (ریزسٹر) اور کیپیسیٹر استعمال ہوتے ہیں۔ بہت سارے کیپیسٹر وں کو متوازی (parallel) چارج کیا جاتا ہے۔ کچھ وقت کے بعد جب سارے کیپیسٹر چارج ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ساتھ سیریز میں شرارہ (spark) بناتے ہوئے ڈسچارج ہو جاتے ہیں اور چارجنگ کا عمل پھر سے دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

 
6 لاکھ وولٹیج کی مدد سے بنایا گیا آسمانی بجلی جیسا شرارہ۔ 10 کیپیسٹروں کے سامنے 9 چھوٹے اسپارک گیپ(spark gap) ہیں۔ شرارے کا نہ پھیلنا اور دھاگے کی طرح سمٹے رہنا pinch effect کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شرارے سے الٹراوائیلٹ شعاعیں خارج ہوتی ہیں جنہیں شیشہ بڑی حد تک روک سکتا ہے۔
 
جبل پور انجینئیرنگ کالج,، جبلپور، ہندوستان میں موجودبہت زیادہ وولٹیج بنانے کا آلہ۔ یہ Marx generator کے اصول پر کام کرتا ہے۔

ڈکسن چارج پمپ ترمیم

Dickson charge pump یا ڈکسن ملٹی پلائر بھی کوکروفٹ والٹن ملٹی پلائر کی ہی ترمیم شدہ شکل ہے۔ لیکن یہ اے سی کی بجائے ڈی سی ان پٹ (input) لیتا ہے اور اس کی آوٹ پٹ (output) ڈی سی وولٹیج زیادہ بھی ہو سکتی ہے اور کم بھی رکھی جا سکتی ہے۔ ایک اور واضح فرق یہ ہے کہ ڈکسن چارج پمپ کو چلانے کے لیے 2 کلوک پلس (clock pulse) کی ضرورت ہوتی ہے جو ڈی سیinput کو اے سی میں تبدیل کر دیتی ہیں۔
یہ چارج پمپ کمپیوٹر اور موبائل فون میں بڑی کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ ایک ہی 3 وولٹ یا 5 وولٹ کی بیٹری سے +10V اور -10V دونوں ایک ساتھ بنا سکتے ہیں۔
ایک میموری کارڈ پر لکھنے (یعنی save کرنے) کے لیے 5 وولٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مٹانے (یعنی delete کرنے) کے لیے 12 وولٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر میموری کارڈ میں چارج پمپ موجود ہوتا ہے۔

 
چار مرحلوں پر مشتمل ڈکسن چارج پمپ۔ انتہائی دایں طرف کا آخری کیپیسٹر صرف smoothing کے لیے ہوتا ہے۔

بوسٹ کنورٹر (Boost converter) ترمیم

انھیں ڈی سی سے ڈی سی کنورٹر بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے سرکٹ عام طور پر بہت کم ڈی سی وولٹ سے زیادہ ڈی سی وولٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جب کسی کوائل (coil) سے گزرنے والے ڈی سی کرنٹ کو اچانک منقطع کیا جاتا ہے تو ایک لمحے کے لیے وولٹیج کوائل پر لگائی جانے والی اصل وولٹیج سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ الیکٹرونی طریقوں سے اسے بار بار دُہرا کر اصل وولٹیج سے زیادہ وولٹیج حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ کوائل میں جمع شدہ برقی توانائی وولٹیج میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے انجن میں اسپارک پلگ کو مہیا کی جانے والی وولٹیج اسی طریقے سے بنائی جاتی ہے۔ ڈیزل انجن اور برقی کار میں اسپارک پلگ نہیں ہوتے۔

 
بوسٹ کنورٹر کا بنیادی خاکہ۔ سوئیچنگ کے لیے موس فیٹ (MOSFETبائی جنکشنل ٹرانسسٹر (BJT) یا آئی جی بی ٹرانسسٹر (IGBT) استعمال کیے جاتے ہیں۔
 
ماچس کی تیلی جتنا لمبا بنا بنایا بوسٹ کنورٹر کا موڈیول جو کم وولٹیج کی ڈی سی کو زیادہ وولٹیج کی ڈی سی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس میں XL6009 کا آئی سی استعمال ہوا ہے۔ اوپر بڑے سوراخ کے نزدیک پیتل کا پیچ گھما کر آوٹ پٹ وولٹیج کم یا زیادہ کی جا سکتی ہے۔

بوسٹ کنورٹر کسی اسٹیپ اپ (step up) ٹرانسفورمر کی طرح وولٹیج تو بڑھا دیتے ہیں لیکن کرنٹ کم کر دیتے ہیں۔ لیکن ٹرانسفورمر صرف AC میں استعمال کیے جا سکتے ہیں، DC میں نہیں۔
ایسے سرکٹ جو زیادہ ڈی سی وولٹیج کو کم ڈی سی وولٹیج میں تبدیل کر دیتے ہیں وہ buck converter (step-down converter) کہلاتے ہیں۔ یہ کرنٹ بڑھا دیتے ہیں۔

بذریعہ کیپیسٹر ترمیم

جب ایک سیدھی پلیٹوں اور ڈائی الیکٹرک والے کیپیسٹر کو بیٹری سے منسلک کیا جاتا ہے تو کیپیسٹر پر چارج آ جاتا ہے اور کیپیسٹر پر وہی وولٹیج بن جاتی ہے جتنی بیٹری کی ہوتی ہے۔ اب اگر بیٹری سے منسلک شدہ حالت میں کیپیسیٹر کا ڈائی الیکٹرک کھینچ کر نکال دیا جائے تو کیپسیٹر پر چارج کم ہو جاتا ہے لیکن وولٹیج اب بھی بیٹری کی وولٹیج کے برابر رہتی ہے۔ کیپیسٹر کا اضافی چارج اب بیٹری میں منتقل ہو جاتا ہے۔
لیکن اگر چارج شدہ کیپیسٹر کو بیٹری سے جدا کرنے کے بعد اس کا ڈائی الیکٹرک کھینچ کر نکال دیا جائے تو کیپیسٹر کی وولٹیج بڑھ جاتی ہے کیونکہ ڈائی الیکٹرک کو کھینچنے میں صرف ہونے والی توانائی (work done) اب وولٹیج میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم