ویکیپیڈیا:ویکی آموزی (کہاں کیا ہے)

ابتداء کیجیے!   اڑوس
پڑوس
  تحریر
کریں
  شکل
صورت
  شکل
صورت
  ربط
سازی
  بات
چیت
  اندراج
رکنیت
  اضافی
معلومات
   

صفحۂ اول

انگریزی کے ہوم پیج کو اردو میں صفحۂ اول کہتے ہیں۔ اس صفحۂ اول پر آپ کو متعدد اہم صفحات کے لنکس یا روابط مل جائیں گے۔ آپ کو چاہیے کہ صفحۂ اول پر موجود ان تمام روابط کو یکے بعد دیگرے کلک کر کر کہ دیکھیے کہ کس ربط سے کونسا صفحہ کھلتا ہے۔ اس طرح کرنے سے آپ کو اردو ویکیپیڈیا سے خاصی مانوسیت ہو جائے گی۔
سب سے اوپر دائیں کونے پر آپ کو جو لوگو نظر آرہا ہے اس کو اردو میں شارہ کہا جاتا ہے۔ شارہ کے نیچے آپ کو اپنے کمپیوٹر کی کھڑکی کے دائیں کنارے پر ایک فہرست نظر آئے گی جس کو انگریزی میں رائٹ مینیو اور اردو میں دائیں قائمہ کہتے ہیں۔ صفحۂ اول پر اس دائیں قائمہ میں آپ کو 5 عدد خانے نظر آئیں گے۔
سب سے اوپر اور شارہ کے بالکل نیچے جو خانہ ہے اس میں سب سے اوپر صفحۂ اول پر کلک کر کہ آپ کسی بھی صفحے سے واپس صفحۂ اول پر آسکتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے خانہ کو دیکھیں جس کا نام تعامل ہے، اس میں ایک اہم ترین ربط ----- دیوان عام ----- کا نظر آئے گا، دیوان عام کے صفحے پر آکر تمام ساتھی ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔ دیوان عام کے نیچے ----- حالیہ تبدیلیاں ----- کا ، یہ بھی بہت اہم ربط ہے اور اس پر کلک کر کہ آپ ویکیپیڈیا میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ آج کون سے نئے مضامین شامل ہوئے اور کن مضامین میں ترامیم اور اضافہ کیا گیا اور کس کس ساتھی نے آج کے کام میں حصہ لیا۔
اس کے نیچے کے خانے میں آپ کو دیگر منصوبے، طباعت/برآمدگی، آلات اور دیگر زبانیں، وغیرہ کے نام سے خانے نظر آئیں گے جن کے بارے میں تفصیل اس ٹیوٹوریل میں آگے آتی جائے گی۔
اسی طرح آپ ایک ایک کر کے اپنی سہولت کے مطابق تمام روابط کو دیکھیے تاکہ آپ کی اجنبیت دور ہو جائے اور آپ کے ذہن میں یہ خاکہ آجائے کہ آپ کس ربط اور کس صفحے سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

{{تعارف

رشید حسرتؔ ۱۶ جون ۱۹۶۲ کو مِٹھڑی (ضلع کچھّی) بلوچستان میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں تھے جب سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ ۱۹۸۱ میں ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ آئے تو باقاعدہ ان کا کلام مقامی اور قومی سطح کے اخبارات و رسائل میں شائع ہونے لگا۔ ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز میں بھی حصّہ لیتے رہے۔ مقامی، صوبائی، قومی اور پاک و ہند سطح کے مشاعرے پڑھتے رہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور سیکریٹریٹ کی ملازمت ترک کر کے اردو ادب کے استاد کے طور فرائض انجام دینے لگے۔ بہت نرم دل، شریف النفس اور انتہائی سادہ مزاج انسان ہیں۔ آج کل ایک مقامی کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور خدمات انجام دے رہے ہیں اور صدرِ شعبۂِ اردو ہیں۔


رشید حسرتؔ

معلومات شخصیت

پیدائش ۱۶ جون ۱۹۶۲ (۵۹ سال) مِٹھڑی

شہریت پاکستان

رہائش کوئٹہ


عملی زندگی

مادر علمی بلوچستان یونیورسٹی

تعلیم ایم اے (اردو)

پیشہ شاعر، ادیب

پیشہ ورانہ اردو زبان

شعبۂِ عمل غزل، نظم، نثر

ملازمت محکمہ تعلیم

شعری سوکھے پتوں پہ قدم مجموعے ۲۰۰۱ دوسرا اپسرا ادا کی بات مجموعہ زیرِ طباعت

نمونۂِ کلام


وُه شور ہے کہ یہاں کُچھ سُنائی دیتا نہیں تلاش جِس کی ہے وه کیوں دِکھائی دیتا نہیں 

سُلگ رہا ہوں میں برسات کی بہاروں میں یِه میرا ظرف کہ پِھر بھی دُہائی دیتا نہیں

یتِیم پالتی ہے بہن کِس مُشقّت سے ہے دُکھ کی بات کہ اِمداد بھائی دیتا نہیں

وه در فرار کے مُجھ پر کُھلے تو رکھتا ھے  وه زُلف قید سے لیکِن رِہائی دیتا نہیں

زمیندار نے دہقاں کی پگ اُچھالی آج که فصل کاٹتا تو ہے بٹائی دیتا نہیں

میں اپنے نام کی اِس میں لکِیر کھینچ نہ لُوں وُه میرے ہاتھ میں دستِ حِنائی دیتا نہیں

نہ ہوتی حُسن کی توصِیف گر اُسےؔ مقصُود تو شاہکارؔ کو اِتنی صفائی دیتا نہیں

کسک جو دِل میں ہے بخشی ہُوئی اُسیؔ کی ہے مقامِ عِشق تلک جو رسائی دیتا نہیں

رشِیدؔ پیڑ کے ساۓ سے سُکھ کی تھی اُمید یہ کیا کِہ بیٹا بھی گھر میں کمائی دیتا نہیں۔


شِکستہ دِل، تہی دامن، بچشمِ تر گیا آخر صنم مِل کر ہمیں پِھر آج تنہا کر گیا آخر

غریبِ شہر تھا خاموش رہنے کی سزا پائی وفا کرنے پہ بھی اِلزام اُس کے سر گیا آخر

بڑھا کر ھاتھ اُلفت کا سدا کی بے کلی دے دی تُمہاری چاہ کر کے ایک شاعر مر گیا آخر

یہ طے تھا ھم انا کے فیصلے سے مُنہ نہ موڑیں گے رہی دستار قائم تن سے لیکن سر گیا آخر

فنا کے ھاتھ اپنی زندگی کو چُھو نہ سکتے تھے مگر مالک تیری دُنیا سے یہ دل بھر گیا آخر

تھکن سے چُور تھا اُس کا بدن اور آنکھ بوجھل تھی وہ شب بھر گھر سے باہر تھا پلٹ کر گھر گیا آخر

وہ جِس کی جُستجو میں ھم نے اپنی زِندگی کھو دی وُہی تو آج حسرتؔ ھم پہ تُہمت دھر گیا آخر


ذرا سی باپ مِرا کیا زمین چھوڑ گیا کثیر بچّے ہیں ازواج تین چھوڑ گیا

مُجھے مِلے تو میں اُس نوجواں کو قتل کروں جو بد زباں کے لیئے نازنِین چھوڑ گیا

رہا جو مُفت یہ حُجرہؔ دیا سجا کے اُسے مکاں کُشادہ تھا، لیکن مکین چھوڑ گیا

پِلایا دودھ بھی اور ناز بھی اُٹھائے، مگر کمال سانپ  تھا جو آستین چھوڑ گیا

پلٹ تو جانا ھے ھم سب کو ایک دن، یارو مگر وہ شخص جو یادیں حسین چھوڑ گیا

میں اپنی تلخ مِزاجی پہ خُود ھُؤا حیراں  گیا وہ شخص تو لہجہ متین چھوڑ گیا 

ابھی کی حق نے عطا کی ھے، کل کی دیکھیں گے اب ایسی باتوں پہ کاہے یقین چھوڑ گیا؟

وہ ایک جوگی جو ناگن کی کھوج میں آیا ھؤا کچھ ایسا کہ وہ اپنی بِین چھوڑ گیا

صِلہ خلوص و عقیدت کا مانگ سکتا تھا جو ایک شخص زمیں پر جبین چھوڑ گیا

 خدا کا خوف نہیں، وائرس کا تھا خدشہ جسے بھی موقع ملا ھے وہ چِین چھوڑ گیا

کوئی مزے سے مِرا کھیل دیکھتا تھا رشیدؔ مگر جو دیکھنے والا تھا سِین، چھوڑ گیا


فلاح کے لیئے اِنساں کی کام کرتا رہا خُلوص و مِہر کے کُلیے میں عام کرتا رہا

مِرے لِیئے تو مِرے دوست زہر اُگلتے رہے میں کِس گُماں میں ملائم کلام کرتا رہا

وہ کِس قدر مِری فرمائشوں کے تھا تابع اُجالے رُخ سے، جو زُلفوں سے شام کرتا رہا

مِلا جو اور کوئی اُس کی سمت دوڑ پڑا کُھلا وہ شخص، غرض کا سلام کرتا رہا

بہُت کنِیزیں مُیسّر ہیں حرف حلقے میں بہت سے لفظوں کو اپنا غُلام کرتا رہا

طلب تھی جِس کے لیئے ہر گھڑی مسرّت کی مِری خُوشی کو وہ غم اِنضمام کرتا رہا

پڑا جو وقت، مُعلّق تھا میں خلاؤں میں گُمان کو در و دِیوار و بام کرتا رہا

کبِھی جو چین کے لمحے مُجھے نصِیب ھُوئے یقِین رکھنا وہ سب اُس کے نام کرتا رہا

جو آدمی کی نفِی، اِختلاف اُن سے ہے جو مُعترِف، سو میں اِحترام کرتا رہا

کہا تھا اُس کو مِرے ساتھ دِن کا کھانا ہے وہ کھا چُکا، میں یہاں اِہتمام کرتا رہا

رشیدؔ کیسے بلاؤں سے بچ کے نِکلوں گا جو قید رکھنی تھیں خُود بے لگام کرتا رہا}}