پتلون
پتلون، لباس کی ایک ایسی قسم کو کہا جاتا ہے جو پاجامے کی مانند اور اکثر مرد حضرات میں مقبول ہوتی ہے۔ اِس کو ٹانگوں پر پہنا جاتا ہے اور یہ عموماً کمر سے ایڑھیوں تک ہوتی ہے۔ اِسے اکثر کمر پر باندھا جاتا ہے، لیکن چوغوں اور دھوتیوں کے برعکس، پتلون دونوں ٹانگوں کو علیہدہ طور سے ڈھانپتی ہے۔ شمالی امریکا، آسٹریلیا اور انگلستان کے شمالی علاقوں میں اِسے پَینٹس (pants) بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ، اکثر ممالک میں پَینٹس، انڈرویئر (underwear) یعنی زیر جامے، کو کہتے ہیں اور يہاں پتلون کو ٹراؤزر (trousers) کہا جاتا ہے۔
اکثر شارٹس کا شمار بھی پتلونوں میں ہوتا ہے لیکن شارٹس یا نَیکر کی لمبائی گٹھنوں کے آس پاس ختم ہو جاتی ہے جبکہ پتلون ایڑھی تک لمبی ہوتی ہے۔ برطانیہ میں شارٹس کو اکثر شارٹ ٹراؤزر (short trousers) یعنی چھوٹی پتلون بھی کہا جاتا ہے۔
مغربی دنیا میں پتلونوں کو قدیم عرصے سے پہنا جاتا رہا ہے۔ پتلونیں قرون وسطیٰ میں بالغ مردوں میں کافی مقبول ہوئیں البتہ اِن کو لباس کے طور پر کثرت سے اپنایا نہیں گیا اور کِلٹ (kilt؛ اسکاٹ لینڈ کا ایک دھوتی نما لباس) جیسے ملبوسات کو پزیرائی ملتی رہی۔ پتلونیں تو کہیں 1235ء میں جا کر عام استعمال میں آنے لگیں؛ البتہ، گرجا گھروں میں پتلونیں پہننے کو غیر تہذیبی اور غیر اخلاقی سمجھا جاتا تھا۔ بیسویں صدی میں پتلونیں عورتوں میں بھی مقبول ہونے لگیں جبکہ قدیم دنیا میں کچھ ایسی عورتوں کا بھی ذکر ملتا ہے جو پتلونیں پہنا کرتی تھیں۔ جینس (jeans) پتلونوں کی ایک ایسی قسم ہے جو ڈینم (denim) سے بنائی جاتی ہیں اور یہ آج کل مردوں اور عورتوں، دونوں میں بہت مقبول ہیں۔
تاریخ
ترمیمزمانہ قدیم
ترمیمقدیم زمانہِ پتھر کے بالائی ادوار میں پتلونوں کی موجودگی کی شہادت اِس وقت کے لوگوں کی بنائی گئی تصویروں سے ملتا ہے۔ سائبیریا میں مالتا بوریت کی قدیم تہذیب پتلونوں کا استعمال کرتی تھی اور یہ لوگ اکثر اپنی کندہ کاری تصویروں میں انسانوں کو پتلونیں پہنے دِکھاتے تھے۔[1] پتلونوں کی سب سے قدیم شہادت چین کے صوبے سنکیانگ میں یانغائی کے شہرِ خموشاں کی کھدائی سے ملی۔ یہاں سے دریافت کردہ پتلونیں 13ویں تا 10ویں صدی قبل مسیح میں اونی کپڑے سے بنائی گئی تھیں اور ماہرین کا ماننا ہے کہ انھیں گھڑسواری کے لیے پہنا جاتا تھا۔[2] وسطی ایشیاء کے گھڑسواروں میں پتلونیں اِس لیے مقبول تھیں کیونکہ اِن کی مدد سے حرکت میں اور گھوڑوں پر چڑھنے اور اترنے میں، آسانی ہوتی تھی۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ سارہ نیلسن (2004ء)، آثارِ قَديمَہ میں جنسیت کا جائزہ: اقتدار اور حیثیت۔ راؤمان آلٹامیرہ۔ ص: 85۔
- ↑ بروس باور (30 مئی 2014ء)، "3000 سال قبل گھڑسواروں میں پتلونوں کی مقبولیت"۔ سائنس نیوز۔ اخذ کردہ بتاریخ 29 اکتوبر 2015ء۔
- ↑ الریک بیک؛ میک واگنر؛ ژاؤ لی، ڈیزمنڈ ڈورکین-مائسٹرایرنسٹ (20 اکتوبر 2014)، "پتلونوں کی ایجاد اور ان کی گھڑسواری اور ہرکت العام سے وابستگی: وسطی ایشیاء کے علاقے طرفان سے 3000 ہزار سال پرانی پتلونوں کی دریافت"۔ قواٹرنیری انٹرنیشنل۔ صص: 224–235۔