پروتاغوراث
فروتاغورث یا پروتاغوراث (Protagoras)۔ (/proʊˈtæɡərəs/; یونانی: Πρωταγόρας; c. 490 – c. 420 BC یونانی فلسفی اور سوفسطائی 481 قبل مسیح میں تھریس میں پیدا ہوا۔ جوانی میں ایتھنز چلا گیا جہاں پیری کلیز نے اسے نیا ضابطہ قوانین مرتب کرنے کے کام پر مامور کیا۔ یہ پہلا یونانی فلسفی تھا جس نے سوفسطائیت اختیار کی اور معاوضہ لے کر درس دیا۔ اس کا خیال تھا کہ خیروشر کے کوئی مطلق یا مجرد معیار نہیں ہیں۔ بلکہ لوگوں کی رائے جو معاشرتی طرز عمل معین کر دیتی ہے، وہی خیر یا شر کا پیمانہ ہے، اس لیے عوامی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ مذہب کے معاملے میں لاادریت کا قائل تھا۔ اس نے اپنی ایک کتاب میں لکھا
فروتا غورث Protagoras | |
---|---|
دیموقراطیس (درمیان) اور فروتاغورٹ(دائیں)
17ویں صدیں کی پینٹنگ جسے Salvator Rosaنے بنایا Hermitage Museum میں | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | c. 490 ق م[1] Abdera |
وفات | c. 420 ق م بحیرہ ایونی |
وجہ وفات | غرق |
عملی زندگی | |
پیشہ | فلسفی |
پیشہ ورانہ زبان | قدیم یونانی |
شعبۂ عمل | فلسفہ |
تحریک | فلسفۂ ما قبل سقراط |
درستی - ترمیم |
” | میں دیوتاؤں کا احترام ضرور کرتا ہوں لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ فی الوقع وجود بھی رکھتے ہیں یا نہیں | “ |
تاریخ کا پہلا توہین مذہب کا مقدمہ جو ریاستی سطح پہ درج ھوا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے چار سو سال پہلے کی بات ہے۔ اس زمانے میں یونان میں اگرچہ جمہوریت تھی لیکن یونانی مذہب کے عقائد اور رسومات کا ماخذ اساطیری داستانیں یا دیومالائی قصے کہانیاں تھیں۔لوگ دیوی دیوتاؤں کو خدا سمجھتے اور ان پر ایمان کامل رکھتے تھے۔ خیال رہے زمانہ قبل مسیح کے یونانی اپنے مذہب کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کے مذہب کی بنیاد یا ماخذ دیومالائی قصے کہانیاں تھیں۔ ان کہانیوں کے کردار دیوی دیوتا تھے اور ان کی تعداد ١٤ تھی۔ ان دیوی دیوتاؤں کے نام زیوس، اپالو، ہرمیس، حادث، آریس، آرتمیس، دیمیتر، دیونیسوس، پوسیدون، افرودیت، ایتھنا یا اثینا، ہیرا، ہیستیا اور ہیفایستوس ہیں۔یونانیوں کے نزدیک دنیا میں اچھی زندگی گزرنے اور آفات سے محفوظ رہنے کے لیے ان خداؤں کو خوش رکھنا ضروری تھا۔ نیز مرنے کے بعد اگلی دنیا میں بھی یہی خدا ان کا خیال رکھتے تھے۔ لہذا اپنے ان خداؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہ کھڑے ہو کر اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر ان کی حمدوثنا کرتے رہتے تھے۔ ان میں کئی خدا ایسے بھی تھے جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انھیں جانور بھی قربان کرنے پڑتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کچھ یونانی اپنے دیوتا حادث اور آرتمیس کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ جہاندیدہ بزرگوں نے مداخلت کرکے انھیں اس عمل سے باز رکھا۔ اسی دور میں ایک مشہور فلسفی اور ماہر لسانیات گذرے ہیں۔ ان کا نام فروتاغورث یا پروتاغوراث (Protagoras)۔ تھا۔ یورپ کو گرائمر کے اصول اور منطق یا استدلال سے مکالمہ کرنے کے آداب بھی انھوں نے سکھائے۔ انھوں نے اپنی کسی کتاب میں لکھ دیا کہ ہر چیز کی پیمائش کا پیمانہ آدمی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی شے کے اچھا یا برا ہونے یا اچھائی برائی کا فیصلہ انسان کرتا ہے ناکہ کوئی آسمانی دیوی دیوتا۔ نیز انھوں نے صاف صاف کہہ دیا مجھے نہیں معلوم کہ یونانیوں کے خدا یعنی دیوی دیوتا وجود رکھتے ہیں یا نہیں۔ یتھنز کی اسمبلی نے فروتاغورث کے ان خیالات یا بیانات کو یونان کے مذہب کی توہین قرار دے دیا اور فروتاغورث کی شہریت منسوخ کرکے اسے جلاوطن کر دیا۔ نیز فروتاغورث کی لکھی ہوئی تمام کتابیں ضبط کرکے جلا دیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے چیمپئن افلاطون نے ایتھنز کی اسمبلی کے اس فیصلے (فروتاغورث کی جلاوطنی اور اس کی کتابوں کو نذرآتش کرنے) کو درست قرار دیا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ فیثا غورث اور فروتاغورث دو مختلف شخصیات ہیں اور ان کے زمانوں میں کم از کم ایک صدی کا فرق ہے۔ فیثا غورث ریاضی دان اور سائنس دان تھا۔ اس کے کلیے یا اصول اب بھی ریاضی کے مضمون میں پڑھائے جاتے ہیں۔ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے ٥٠٠ سال پہلے فوت ہو گئے تھے۔ جلاوطنی کے بعد فروتاغورث سسلی کی طرف چلے گئے۔ انھیں پھر کسی نے نہیں دیکھا۔ غالب امکان ہے کہ وہ سمندر میں ڈوب گئے۔ایک راے یہ بھی ہے کہ وہ پروتا غورث مذہبی جنونیوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے یا ممکن ہے مذہبی جنونیوں نے انھیں سمندر میں ڈبو دیا ھو [2]
چنانچہ اس پر کفر و الحاد کا الزام لگا کر جلاوطن کر دیا گیا۔ سسلی جاتے ہوئے راستے میں انتقال ہوا۔