پسنی بندرگاہ(ضلع گوادر مکران) (Port of Pasni) پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پسنی شہر میں واقع ہے۔ سہولیات میں جدید مچھلی ہاربر شامل ہیں۔ بندرگاہ پاک بحریہ کے لیے ایک بحری اڈا ہے۔[1] یہ بندرگاہ کراچی سے براستہ خشکی دو سو میل کے فاصلے پر ہے، پہلے یہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی، لیکن 1931ء میں خان قلات میر محمود خان دوم کی وفات کے بعد ان کے جانشین میر احمد یار خان کو اپنے اختیارات کا علم ہوا، تو انھوں نے بیرون ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے پسنی کی بندرگاہ قلات کی دوسری بندرگاہوں کے مقابلے میں زیادہ کار آمد ثابت ہوئی چنانچہ سندھ اور بلوچستان کے تاجروں جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، یہاں سے تجارتی مال درآمدو برآمد کرنے کی طرف توجہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ماہی گیروں کی یہ چھوٹی سی گمنام بستی وسط ایشیا میں شہرت حاصل کر گئی۔ جاپان سے ریشمی سوتی اور اونی کپڑے اور کیوبا سے چینی بڑی مقدار میں درآمد ہونے لگی اور یہاں سے خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں وغیرہ ہندوستان کی بندرگاہ اور کولمبو کو برآمد کی جانے لگی۔ اس درآمد و برآمد سے ریاست قلات کی آمدنی میں چار پانچ لاکھ روپے سالانہ کا اضافہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ پسنی سے درآمد شدہ مال مکران، ساراوان، جھالاوان اور کچھی کے علاقوں میں راہداری اور سنگ بھی وصول کیا جانے لگا ،جس کی مجموعی آمدنی پندرہ بیس لاکھ روپے سالانہ سے کم نہ تھی۔ ان دنوں 1939ء میں پسنی کی آبادی دس ہزا ر نفوس پر مشتمل تھی، جن میں اکثریت ’’میلا‘‘ شاہی بلوچوں کی تھی۔

1898ء میں مکران کی بغاوت فرو کرنے کے لیے انگریزی فوج کرنل مین کے زیر کمان اس بندرگاہ میں اتری تھی۔ یہ فوج ذحانی جہاز میں کراچی سے روانہ ہو کر پسنی پہنچی اور پھر یہاں سے کوچ کر کے 30جنوری 1898ء کو کپروش کے مقام پر بلوچ مجاہدوں سے جا ٹکرائی۔ اس لڑائی میں میر بلوچ خان نو شیروانی اور کئی دوسرے نامی گرامی بلوچ شہید ہوئے۔ 1942ء میں پسنی میں ایک شدید زلزلہ آیا۔ سمندری موجوں نے تمام شہر تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ قائم ہوا، تو پسنی بھی دوسری بندرگاہوں کی طرح مرکزی حکومت کی تحویل میں چلی گئی۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Pakistan Naval Bases
  2. پاکستان کی سیر گاہیں شیخ نوید اسلم