18 دسمبر 1912 کو چارلس ڈاوسن نے جیولاجی سوسائٹی آف لنڈن کی ایک میٹنگ میں انکشاف کیا کہ چار سال قبل اسے ایک ایسی انسانی کھوپڑی اور جبڑے کی ہڈی کے رکاز (fossil) ملے ہیں جو بندر کی کھوپڑی (skull) سے بھی مماثلت رکھتے ہیں۔ اس کے دعوے کے مطابق اسے یہ فوسل انگلینڈ کے ایسٹ سسکس کے علاقے پلٹ ڈاون سے ملے تھے۔ اس ایجاد کو سائنٹیفک کمیونٹی میں ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا missing link سمجھا گیا اور اسے بڑی پزیرائی ملی۔

1915 کی ایک تصویر جس میں چارلس ڈاوسن اور دوسرے سائنس دان کھوپڑیوں کا معائنہ کر رہے ہیں.

لگ بھگ چالیس سال بعد نومبر 1953 میں ٹائم نے ایک مضمون چھاپا جس میں تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ چارلس ڈاوسن نے کس طرح جان بوجھ کر سائنس دانوں کو بے وقوف بنایا تھا۔ اس نے چند سو سال پرانی ایک انسانی کھوپڑی میں کوئی پانچ سو سال پرانے اورنگوٹان بندر کا جبڑا لگایا جس میں اس نے چمپنزی بندر کے دانت کے فوسل فٹ کر دیے تھے۔

پلٹڈاون آدمی کی کھوپڑی کی نقل.

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی ربط

ترمیم

Atlas of creation by Haroon Yahya[مردہ ربط]