پوٹھوہار مانس
پوٹھوہار مانس دور: 12.5–8.5 ما Miocene | |
---|---|
S. indicus کھوپڑی، نیچرل ہسٹری میوزیم، لندن
| |
اسمیاتی درجہ | جنس |
جماعت بندی | |
مملکت: | جانور |
جماعت: | ممالیہ |
طبقہ: | حیوانات رئیسہ |
خاندان: | Hominidae |
الأسرة: | Ponginae |
جنس: | Sivapithecus |
سائنسی نام | |
Sivapithecus[1] Guy Ellcock Pilgrim ، 1910 | |
Species | |
Sivapithecus indicus Sivapithecus sivalensis |
|
مرادفات | |
رام مانس | |
درستی - ترمیم |
1910 میں بھارتی پنجاب سے ایک مانس کے مجہرات ملے۔ پھر 1934 میں بھارتی پنجاب میں کوہ شوالک سلسلہ کوہ میں بالائی جبڑے کا ایک متجھر ٹکڑا ملا۔ چین میں چینی سائیندانوں نے اس مخلوق کے کچھ اعضائ 1957 اور 1958 میں دریافت کیے۔ ادھر افریقہ میں 1961ئ میں اس کے بالائی جبڑے کے کچھ ٹکڑے ملے جو ایک کروڑ چالیس لاکھ سال پرانے تھے۔ ان محجرات کو انسانی مانس کے اس زمرے میں رکھا گیا اور اس مخلوق کو رام مانس Ramapithecus کا نام دیا گیا۔ کیوں کہ سب سے پہلے اس کے ٹکڑے راجا رام چندر جی کے دیس میں ملے تھے۔ شروع ہی سے ماہرین اس مخلوق کو انسان کا جد امجد قرار دیا اور نوعی تقسیم کے اعتبار سے اکثر ماہرین نے اسے انسانی تقسیم کے تحت رکھا ہے اور اس کا زمانہ 2 کروڑ سال قبل سے اسی لاکھ سال قبل کے عرصہ پر پھیلا ہوا ہے۔
بھارت کے بعد اس کے معتدد اعضائ کینیا اور چین سے ملے لیکن اس کے سب سے زیادہ اہم مجحرات پاکستان سے 1978 میں ملے ہیں۔ ان کو راما پتھے کس یا پنجابی پتھے کس Panjabipithecus کا نام دیا گیا۔ تاہم حکومت پاکستان نے اس کے لیے پوٹھوہار ایپ ( پوٹھوہار مانس ) کی اصطلاح تجویز کی۔ لہذا رام مانس کی وسیع ترین مفہوم میں پوٹھوہار مانس استعمال کیا جانا چاہیے۔ مزکورہ مجحرات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مخلوق پاکستان کے علاقہ میں دو کروڑ سال پہلے سال قبل رہتی تھی۔ کینیا، بھارت اور چین میں شاید اس کا زمانہ بعد کا ہو۔ دنیا پھر میں یہ مخلوق سوا کروڑ سال زندہ رہی اور اس کا وطن پورا بر اعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ تھا۔
یہ اولین جد آدم تھی، یعنی یہ مخلوق ارتقائ کا وہ نقطہ، وہ مرحلہ تھی جہاں انسان کی شاخ مانس سے حتمی طور پر جدا ہو گئی۔ اس سے اوپر تو انسان اور مانس کا جد مشترک تھا۔ لیکن اب پوٹھوہار مانس ایک ایسی مخلوق وجود میں آگئی جس کی نسل ارتقائ کے مختلف مراحل سے ہوتی ہوئی براہ راست انسان تک پہنچی۔ جب کہ دوسری شاخ میں سے معتدد موجودہ بندر، لنگور، مانس اور ایسی دوسری نسلیں وجود میں آگئیں۔ پوٹھوہار مانس کی شاخ سے صرف جدید انسان باقی رہ گیا۔ باقی شکلیں قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح قوانین کے تحت معدوم ہوگئیں۔
پوٹھوہار مانس اور دیگر غیر انسانی مانسوں کا آخری مشترکہ جد سلسلہ غالباً ماقبل زائد مانس PROPLIOPITHECU تھا، جو آج سے تین کروڑ سال قبل کرہ ارض پر پھیلا ہوا تھا۔ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ پوٹھوہار مانس استوائی اور زیریں استوائی جنگلوں اور گیاہستانوں میں رہتا تھا۔ اس نسل کے افراد 1.1 میٹر سے لے کر .1.2 میٹر ) یعنی تقریباً تین فٹ سات انچ لے کر چار فٹ تک ( کے قد کے یہ چھوٹے چہرے والے لوگ تھے۔ ان کا وزن تقریباً چالیس پونڈ تھا۔ دہن کی چھٹ گول محرابی ہڈی والی تھی۔ اس کے علاوہ دانتوں کی ساخت اور اوپر نیچے کے دونوں جبڑوں کی ہڈیاں جنوبی مانس سے مماثل تھیں۔ ظاپر ہے جنوبی مانس بہت بعد کی نسل ہے۔ اگر جنوبی مانس کا پوٹھوہار مانس سے کسی قسم کا نسلی تعلق نہیں ہے تو جسمانی ساخت کی ان مماثلوں کی وضاحت نہیں کی جا سکتی ہے۔ مزید براں اس کے دانتوں کی ساخت باشعور آدمی کا مزاج رکھتی ہے۔ مگر ہے اپنی ابتدائی کھردری شکل میں۔ ان شواہد کی بنائ پر اسے باشعور آدمی کا پیش رو کہا جا سکتا ہے۔ یوں یہ باشعور آدمی اور جنوبی مانس کے سلسلہ نسب میں شامل ہوجاتا ہے۔ آج سے دو کروڑ سال پہلے روئے زمین پر موجودہ مخلوقات میں سب سے ترقی یافتہ مخلوق یہی تھی اور نسل انسانی کا پیش رو تھی۔ اس بات ثبوت نہیں ملتا کہ پوٹھوہار مانس ایسادہ چلتا تھا۔ کیوں کہ اس کی کھوپڑی یا کولھا ابھی تک مل نہیں سکا۔ جس سے اس کے کھڑے ہوکر چلنے نہ چلنے کے بارے میں حتمی رائے قائم کی جاسکے۔ تاہم اس کے فوراً بعد کی جنوبی مانس نسل کے بارے میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ کھڑے ہوکر دونوں پاؤں پر چلتا تھا۔ اس لیے یہ باور کیا جاتا ہے کہ پوٹھوہار مانس نیم چوپایہ یا دو پایہ قسم کا فرد تھا۔ ابھی تک ایسے مجحرات نہیں ملے ہیں کہ جن سے یہ ثابت ہو سکے یہ اوذار بنا سکتا تھا۔ پاکستان میں اس نسل کے ساتھ جو مجحرات ملے ہیں ان کی کل تعداد دس ہزار سے بھی بڑھ کر ہے۔ ان میں مختلف جانوروں کے مثلاً ہاتھی، گھوڑے، ہرن اور سور کی ہڈیاں ہیں لیکن کوئی اوزار نہیں ہے۔ امریکا کی بیل یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ پل بیم نے پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے تعاون سے پوٹھوہار کے علاقے میں 1975 میں کھدائیاں کروائیں۔ جن میزکورہ مجحرات کے علاوہ پوٹھوہار کا ایک مکمل نچلا جبڑا انھیں کھوڑی کے تیل کے کنویں سے نو میل کے فاصلے پر کھدائی میں ملا۔ اس جبڑے کی اہمیت دنیا بھر سے ملنے والے پوٹھوہار مانس کے مجحرات زیادہ ہے کہ یہ مکمل ہے اور اسی کی بنائ پر اس جاندار کی جسمانی ساخت کا خاصہ تفصیلی تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر پل بیم نے اپنی تحقیقات میں یہ ثابت کیا ہے کہ مزکورہ جبڑا پوٹھوہار مانس کا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں اس مخلوق کے اعضائ کے آثار زیادہ تر ضلع اٹک کے دیہاتوں مثلاً نگری، ڈھوک پٹھان اور چھجنی کے علاقے میں کھدائیوں سے ملے ہیں۔ چھنجی کے ذخائر دنیا پھر میں وسیع ترین سمجھے جاتے ہیں۔ یہ زمینیں یا یوں کہنا چاہیے کہ ٹیلے، ڈھیریاں اور چٹانیں ریت اور ریت کے پتھر اور بجری کے ملغبوں سے مل کر بنی ہیں۔ ان میں کثرت سے گھوڑے، ہاتھی، ہرن، سور اور مانس کے مجحرات کی کثیر تعدات ملی ہے۔ جو زمانی طور پر آج سے سات کروڑ سال قبل سے ایک کروڑ بیس لاکھ سال قبل تک پھیلی ہوئی ہے۔ گویا ان زمیوں میں مسلسل سوا چھ کروڑ سال تک مسلسل حیوانی زندگی کی مختلف ارتقائی شکلوں کی ذخیرہ اندوزی ہوتی رہی ہے اور ان میں طبقات ارض کے مختلف ادوار کی زندگی کے نمونے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ دنیا میں کسی اور مقام سے تعداد میں اتنے زیادہ اور زمانی طور پر اتنے وسیع عرصہ پر پھیلے ہوئے مجحرات نہیں ملے ہیں۔
پوٹھوہار مانس کے جبڑے کی ساخت انسان کے جبڑے سے اس قدر مشابہہ ہے کہ جو اسے انسان کا جد قرار دینے کے لیے قطعی قسم کا ثبوت ہے۔ اس بالائی جبڑے میں دانتوں کی گولائی انگریزی کے حروف U سی نہیں ملتی ہے۔ جو غیر انسانی مانس کے جبڑے کا خاصہ ہے۔ غیر انسانی مانس کے جبڑے کی شکل انگریزی حروف U کی قدر نوکدار شکل ملتی ہے۔ جب کہ پوٹھواری مانس کے جبڑے کی شکل شلجمی گولائی رکھتی ہے۔ یعنی طرفین مسلسل باہر طرف کھلتی ہے اور اس کی شکل کھلے ہوئے U ہو جاتی جو باہر کی طرف کھلا اور اندر کی طرف نوکدار ہوتا جاتا ہے۔ چہرہ قدرے باہر کو نکلا ہوا ہے۔ یعنی جبڑا آگے کی طرف بڑھا ہوا ہے۔ خاص کر نچلا جبڑا ناب چھوٹے اور انسانوں جیسے ہیں۔ ( ناب وہ نوکدار دانت ہیں جو کل چار ہوتے ہیں ) ان کی دائیں بائیں رخ کی موٹائی آگے پیچھے رخ کی موٹائی سے زیادہ ہے اور ان کی نوکیں قدرے چوڑیں ہیں۔ ڈاڑھوں کی چبانے والی سطح کے دندانے کوتائ اور گول ہیں۔ ڈاڑھ کے ظاہری حصے کی ساخت سادہ ہے۔ دو دھاری دانتوں کی دو قطاریں نہایت واضح ہیں اور ناب اور سامنے کے دانت بالکل انسانوں جیسے ہیں۔ جبڑے کی محرابیں باکل انسانوں سے مماثل ہیں۔ غیر انسانی مانسوں سے اس کے دانتوں کا سب سے نمایاں فرق انیاب میں ہے۔ مانسوں کے ناب دیگر دانتوں کی نسبت زیادہ لمبے اور تیز نوک والے ہوتے ہیں۔ پوٹھوہار مانس کے ناب اس کے ارد گرد دانتوں کے برابرا لمبے ہیں اور اس کی نوکیں تیز نہیں ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان سے چیر پھاڑ کا کام نہیں لیتا تھا بلکہ چبانے ہی کا کام لیتا تھا۔ جیسا کہ انسانوں میں ہے۔ دیگر مانسوں کے دانت زیادہ موٹے موٹے اور مظبوط تھے۔ جب کہ اس دانت باریک اور نفیس تھے۔ پھر یہ کہ ان پر حفاظتی تہ مانسوں سے زیادہ دبیز ہے۔ دانتوں کی اس خصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوٹھوہار مانس جنگلوں اور گیاہستانوں میں رہتا ہوگا۔ نرم نباتات استعمال کرتا ہوگا اور گوشت خور نہیں ہوگا۔ گوشت خوری کا کوئی خارجی ثبوت بھی نہیں ملا۔
پاکستان کے پوٹھوہار کے علاقے میں 1975 تا 1980 کے دوران پاکستانی سائنس دانوں نے امریکی اور برطانوی ماہرین کے مل کر جو جو کھدائیاں کی ہیں۔ ان میں آذاد شیر دار کے تقریباً اسی نمونے ملے ہیں۔ پوٹھوہار مانس کے دور میں پاکستان میں مانسوں کی چار اقسام رہتی تھیں۔ ان میں ایک پوٹھوہار مانس ہی تھا۔ دوسرا شو مانس SHWAPITHECU ہندو دیوتا شیوا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ پوٹھوہار مانس کا وزن چالیس پونڈ کا تھا۔ جب کہ شوا مانس کا وزن اسی پونڈ تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور نوع العظیم الہیکل مانس JONIGANTIOPITHECU نامی بھی یہاں رہتا تھا، اس کا وزن 150 پونڈ تھا۔ اس زمانہ ایک کروڑ بیس لاکھ سال قبل سے لے کے دس لاکھ قبل تک پھیلا ہوا ہے۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "معرف Sivapithecus دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ"۔ eol.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اکتوبر 2024ء
- ↑ یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور