پنجر (ناول)

ایک اغوا شدہ ہندو لڑکی اور ہندو مسلم تنازعہ کے بارے میں 1950 کا پنجابی ناول

پنجر بھارت کی مشہور مصنفہ، ناول نگار اور شاعرہ امرتا پریتم کا شہرہ آفاق ناول ہے۔[1] اسی عنوان سے ایک فلم بھی بن چکی ہے۔

پنجر
مصنفامرتا پریتم
اصل عنوانਪਿੰਜਰ
مترجمخشونت سنگھ (انگریزیم یں)
Denis Matringe (فرانسیسی میں)
ملکبھارت
زبانپنجابی زبان
صنفسماجی
ناشرتارہ پریس (اشاعت نو)
تاریخ اشاعت
2009 (اشاعت نو)
طرز طباعتشائع شدہ

کہانی

ترمیم

انسانی جبلّت کا تصادم جب انسانی اقدار سے ہوتا ہے تو عظیم المیہ جنم لیتا ہے۔ یہی المیہ ہمیں امرتا پریتم کے ناول پنجر میں بھی نظر آتا ہے۔ خود مصنفہ کا کہنا ہے’المیہ یہ نہیں ہوتا کہ زندگی کے طویل سفر پر سماج کے بندھن اپنے کانٹے بکھیرتے رہیں اور ہمارے پاؤں سے ساری عمر خون بہتا رہے بلکہ المیہ یہ ہوتا ہے کہ آپ لہو لہان پاؤں کے ساتھ ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوجائیں جس کے آگے کوئی راستہ آپکو بلاوا نہ دے‘۔[2]

پِنجر کی لڑکی بھی آخر کار ایک ایسے ہی دوراہے پر جا پہنچتی ہے۔ وہی الھڑ مُٹیار جس کی جوانی کا سراپا امرتا پریتم نے کچھ یوں کھینچا تھا ’پندرھواں برس لگتے ہی پارو کے انگ انگ میں ہلچل مچ گئی۔ پچھلے سال کی سب قمیضیں اسے تنگ ہوگئیں، قریب کی منڈی سے پارو نے پھولوں والی چھینٹ کی نئی قمیضیں سلوائیں، اوڑھنیوں کو بہت سا ابرق لگایا، پارو کی سہیلیوں نے اس کے منگیتر رام چند کو اسے دُور سے دکھلایا تھا۔ پارو کی آنکھوں میں اس کی صورت بس گئی تھی۔ اس کے بارے میں سوچ سوچ کر پارو کا منہ لال ہوجاتا تھا‘۔

بہر حال رام چند کی بجائے لڑکی کے مقدّر میں رشید لکھا ہے : ایک مسلمان لڑکا جس کے گھر والے ایک پرانی خاندانی ہتک کا انتقام لینے کے لیے پارو کو اغوا کر لاتے ہیں اور رشید کے پلے باندھ دیتے ہیں۔ ملک تقسیم ہوجاتا ہے۔ رشید پارو سے زبردستی شادی کر کے اس کا اسلامی نام حمیدہ رکھ دیتا ہے اور پاکستان لے جاتا ہے، لیکن یہ پارو کے مصائب کا خاتمہ نہیں بلکہ آغاز ہے۔

اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ امرتا پریتم کا یہ مختصر سا ناول ان کی ایک غیر معروف تحریر تھی جس سے بہت کم لوگ واقف تھے لیکن 2003 میں چندر پرکاش دِویدی نے اسے سکرین پلے کی شکل دی اور اس کی فلم تیار ہوکر باہر آئی تو ہرطرف اس کہانی کی دھوم مچ گئی۔ پارو / حمیدہ کا کردار انتہائی مہارت سے ارمیلا مٹونڈکر نے ادا کیا اور اس کے منگیتر رام چند کے کردار میں سنجے سوری نے اپنے فن کا کمال دکھایا لیکن رشید کا مشکل اور پیچیدہ کردار ایک ایسا چیلنج تھا جسے منوج واجپائی کے علاوہ شاید کوئی قبول نہیں کر سکتا تھا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Dutt, Nirupama (20 فروری 2005)۔ "Pinjar: a novel ahead of its times"۔ The Sunday Tribune – Books۔ Chandigarh۔ دی ٹریبیون۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-03-29
  2. "Always Amrita, Always Pritam"۔ Chandigarh۔ دی ٹریبیون۔ 5 نومبر 2005۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-03-29