پنڈتا رما بائی سرسوتی (23 اپریل 1858ء — 5 اپریل 1922ء) ہندوستان کی ایک سماجی مصلح اور آزادی و تعلیم نسواں کی علم بردار تھیں۔ وہ پہلی خاتون تھیں جنہیں سنسکرت عالم کی حیثیت سے کلکتہ یونیورسٹی نے پنڈتا اور سرسوتی کا خطاب دیا۔[1]

پنڈتا رما بائی
پنڈتا رما بائی سرسوتی

معلومات شخصیت
پیدائش 23 اپریل 1858ء
کراوالی، مدراس پریزیڈنسی، برطانوی ہند کے صوبے اور علاقے
وفات سانچہ:D-da
بمبئی پریزیڈنسی، برطانوی ہند
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سماجی مصلح، نسائیت پسند
پیشہ ورانہ زبان مراٹھی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں دی ہائی کاسٹ ہندو ویمن

پنڈتا رما بائی سماجی کارکن، دانشور، حقوق نسواں، آزادی و تعلیم نسواں کی علم بردار تھیں۔ پنڈتا رما بائی نے جد و جہد آزادی میں بھی حصہ لیا اور 1889ء کے کانگریس اجلاس کی دس خاتون ارکان وفد میں سے ایک تھیں۔[2][3]

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

پنڈتا رما بائی سرسوتی 23 اپریل 1858ء کو پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اننت شاستری ڈونگرے سنسکرت کے عالم تھے اور ان کی والدہ لکشمی بائی ڈونگرے اننت شاستری کی دوسری بیوی تھیں۔ رما بائی کا پیدائشی نام "رما ڈونگرے" تھا۔ اننت شاستری نے اپنی دوسری بیوی یعنی رما بائی کی والدہ اور رما بائی کو سنسکرت کے متون پڑھائے۔ جب 1877ء کے قحط میں ان کے والدین لقمہ اجل ہو گئے تو انھوں نے اپنے بھائی شری نواس کے ساتھ مل کر اپنے والد کے کام کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں بہن بھائی نے سارے ہندوستان کا سفر کیا۔ حتی کہ رما بائی کی تقریر کی شہرت کلکتہ پہنچی تو وہاں کے پنڈتوں نے انھیں کلکتہ آنے کی دعوت دی۔[4]

سنہ 1878ء میں کلکتہ یونیورسٹی نے انھیں پنڈتا اور سنسکرت متون پر ان کی تشریحات کے اعزاز میں سرسوتی جیسے اعلی خطاب سے سرفراز کیا۔[5] الٰہیاتی مصلح کیشب چندر سین نے انھیں ویدوں کا ایک نسخہ دیا جو ہندو ادب میں سب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور انھیں وید پڑھنے کی ترغیب دی۔[6]

1880ء میں شری نواس کی وفات کے بعد رما بائی نے بنگالی وکیل بپن بہاری میدھوی سے شادی کی۔ بپن بہاری بنگالی کائستھ تھے، اس طرح یہ شادی دو مختلف ذات کا بندھن تھا اس لیے اسے مناسب نہیں سمجھا گیا۔ 13 نومبر 1880ء کو ایک شہری تقریب میں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کی ایک بیٹی تھی جس کا نام منورما تھا۔

رما بائی نے فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان میں خواتین کی بہبود کے لیے زندگی بھر جد و جہد کرتی رہیں گی۔ انھوں نے ان مسائل کا گہرائی سے جائزہ لیا جو ہندوستانی خواتین خصوصاً ہندو خواتین کو درپیش تھے۔ وہ نکاح نابالغان کی سخت مخالف تھیں کہ اس کی وجہ سے نابالغ بیوگی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ نابالغ بیواؤں کے لیے انھوں نے ایک اسکول قائم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا کہ ان کے شوہر 1882ء میں وفات پا گئے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Women's History Month: Pandita Ramabai"۔ Women's History Network۔ March 11, 2011۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2018 
  2. https://www.academia.edu/4481937/Indian_Christianity_and_National_Movements
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 07 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2018 
  4. My Story by Pandita Ramabai. Pub: Christian Institute for Study of Religion and Society, Bangalore.
  5. "Intl' Christian Women's History Project & Hall of Fame"۔ Icwhp.org۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2015 
  6. "Sarla R. Murgai"۔ Utc.edu۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2015 

بیرونی روابط

ترمیم