پیر علی مردان اویسی
حضرت خواجہ پیر علی مردان اویسی | |
---|---|
دیگر نام | خواجہ مقبول الرحمٰن اویسی |
ذاتی | |
پیدائش | 1188 ھ (1771ء) |
وفات | 25 رجب المرجب 1282ھ (1865ء) |
مدفن | چوک شہیدان، اکبر روڈ، ملتان، پاکستان |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
دیگر نام | خواجہ مقبول الرحمٰن اویسی |
سلسلہ | سلسلہ اویسیہ |
مرتبہ | |
مقام | ملتان، پاکستان |
ولادت
ترمیمآپ کی ولادت با سعادت قدیم شہر ملتان کے بارونق بازار کتب فروشاں اندرون بوہڑ گیٹ ملتان میں ہوئی۔ آپ حضرت مولانا حافظ علی مدد صاحبؒ کے نورِ نظر تھے۔ جب آپ نے گیارہویں صدی ہجری کے آخر یعنی 1188ھ میں اس دنیا میں قدم رکھا تو ہندوستان کی مختلف ریاستی اور بالخصوص مسلمان قوم ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف مصروف پیکار تھی۔ ابھی انگریز ہندوستان پر مکمل حکومت اور قبضہ نہیں کر سکے تھے۔ ملک کو غلامی سے بچانے کے لیے مسلمان اپنے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ رہے تھے۔ یہ تھے وہ سیاسی حالات جن میں حضرت خواجہ پیر علی مردان اویسیؒ کی پیدائش ہوئی۔[1]
تعلیم و تربیت
ترمیمزندگی اور موت کی آماجگاہ میں اہل ملتان بھی کسی طرح سے پیچھے نہیں تھے خاص طور پر مولانا حافظ علی مدد صاحبؒ درس و تدریس اور خطابت سے انگریزوں کی غلامی سے مسلمانوں کو بچا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے لخت جگر کو اسلامی تعلیم سے روشناس کرنے کی ابتداءقرآن پاک کی تعلیم شروع کی۔ اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے قابل حفاظ اور علماءو فضلاءکی صحبت نے حضرت خواجہ پیر علی مردان اویسیؒ کو انسانیت کی اعلیٰ ترین بلندی پرپہنچا دیا۔ آپ نے علوم دینیہ پر دسترس حاصل کرنے کے بعد اپنے والد محترم کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو آپ کے حلقہ شاگردی میں ملتان کے مذہبی اور پیشوا خاندان کے اکابرین شامل ہوئے اور علوم اسلامیہ سے ہمکنار ہوئے۔[1]
سلسلہ نسب
ترمیمآپ کے سلسلہ نسب کئی پشتوں پیچھے حضرت حافظ عبد القادر قادری العراقی سے جاملتا ہے۔ حضرت خواجہ پیر علی مردان اویسیؒ نے بیعت حضرت محکم الدین سیرانی اویسیؒ (صاحب سیر) سے کی جن کا مزار مبارک سمہ سٹہ میں واقعہ ہے اور ان کے مقبول خلیفہ بھی رہے۔ میں یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کا اصل نام حضرت مقبول الرحمن اویسیؒ تھا۔ لیکن آپ کے مرشد حضرت محکم الدین سیرانیؒ نے ہی آپ کو ”علی مردان“ کا لقب عطا کیا جو مشہور عام ہے۔ آپؒ نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مساجد کی خدمات میں بھرپور حصہ لیا۔[1]
خدمات
ترمیمایک روایت کے مطابق آپؒ تمام رات ملتان شہر کی مساجد میں وضو کے لیے پانی کا ذخیرہ کرتے تھے تاکہ صبح کی نماز کے وقت نمازیوں کو پانی میسر آ سکے۔ خاندان علی مردانؒ کی بڑی عورتوں کا کہنا ہے کہ کبھی آپ رات کو آرام کے لیے کمرہ میں جاتے اور اتفاقاً کسی کا گذر ہوتا تو کیا دیکھتے کہ ان کے جسم کا ایک ایک عضو علاحدہ ہو کر اللہ ہُو اللہ ہُو پکار رہا ہوتا تھا۔ کچھ عرصہ کے لیے آپ بہاولپور تشریف لے گئے۔ بہاولپور کی جامع مسجد میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو آپ کے زہد و تقویٰ کا شہرہ عام ہوا تو نواب آف بہاولپور سلام ونیاز کے لیے مسجد میں حاضر ہوئے۔ آپ کے مرید اور معتقدین کا کہنا ہے کہ ”حضرت خواجہ پیر علی مردان اویسیؒ مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے جونہی نواب صاحب موصوف نے مسجد میں قدم رکھا تو آپ کو گم پایا تو نواب صاحب کافی دیر رُکنے کے بعد مایوس ہو کر واپس تشریف لے گئے۔ تو آپ دوبارہ اُسی مقام پر موجود تھے۔ دریافت کیا گیا کہ آپ نواب صاحب کے آنے پر گم کیوں ہو گئے تھے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا میں اس وقت کائنات کے خالق بارگاہ رب العزت کے حضور حاضری دے رہا تھا تو یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ میں دنیا کی ایک ریاست کے حکمران کو ملتا۔ نواب موصوف کو ملنا اللہ جل شانہٗ کے ملنے میں رکاوٹ کا باعث تھا۔ آپ نہایت سادگی سے زندگی گذارتے تھے کئی کئی پہر بھوکے رہتے تھے لیکن آپ کے دستر خوان پر کئی کئی علما، حفاظ اور غرباءومساکین موجود رہتے تھے۔ آپ کے پاس اگر کوئی سوال کرنے والا آتا تو آپ اس کے سوال کو پورا کرنے کے لیے انتہائی بے چین ہو جاتے تھے۔ جب تک سوال پورا نہ کر لیتے سکون و آرام میں نہ آتے تھے۔ بہاولپور سے واپس آ کر آپ نے مستقل ملتان میں قیام کیا درس و تدریس کے علاوہ زورِ خطابت سے انگریزوں کے خلاف صف آراہو گئے۔ آپ کے سامنے انگریزوں کا نام لینا گناہ تھا۔ آپ کے شاگردوں میں جو قابل ذکر ہستیاں ہیں ان میں ”حضرت خواجہ مولاناعبیداللہ ملتانیؒ “ جن کا مزار اقدس کڑی افغاناں میں واقع ہے۔ اور حضرت خواجہ مولانا خدا بخشؒ جن کا مزار اقدس خیر پور ٹامیوالی میں واقع ہے شامل ہیں۔ اور سرائیکی کے عظیم شاعر اور بزرگ خواجہ غلام فرید نے آپ کے دربار سے روحانی فیض حاصل کیا اور چلہ کشی کی۔ آپ کی تمام تر زندگی اللہ کے دین کی بلندی اور پروردگار کی خوشنودی کے لیے وقف تھی۔ اسی مشن میں آپؒ اپنے پروردگار حقیقی سے جا ملے۔[1]
وصال
ترمیمآپ کا وصال 25 رجب المرجب 1282ھ میں ہوا آپ کا جائے مدفن یعنی مزار مبارک چوک شہیداں اور حرم گیٹ والی سڑک یعنی اکبر روڈ پر واقع ہے مولانا مخدوم قادر بخش اویسیؒ المعروف مولانا مخدوم جندوڈا اویسیؒ نے ایک وسیع احاطہ تعمیر کیا۔ اس خانقاہ کی خصوصیت یہ ہے کہ دربار یعنی مزارت والی جگہ کے آگے ایک وسیع حال یعنی مجلس خانہ بنا ہوا ہے۔ مزار کے جنوبی حصے میں ملحقہ زنانہ مردانہ قبرستان ہے۔ مزار کے شمالی جانب چبوترے بنوائے گئے۔ جو سجادہ نشین صاحبان کے لیے مخصوص تھے۔ جو اب برآمدے کی شکل میں موجود ہیں۔ مجلس خانہ کے جنوبی حصہ پر ایک عالیشان جامع مسجد تعمیر ہے۔ اور یہ مسجد بھی اب رشدو ہدایت کا مینا رہے۔[1]
آپ نے وصال کے بعد دوبیٹے چھوڑے حضرت مولانا پیر غوث بخش اویسیؒ اور حضرت مولانا مخدوم قادر بخش اویسیؒ عرف مخدوم جندوڈاؒ۔ چونکہ دربار کی تعمیر اور درس و تدریس کا تمام تر سلسلہ حضرت مخدوم جندوڈا صاحبؒ نے قائم کیا۔ آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا پیر غوث بخش اویسیؒ بارضا خوشی اپنے چھوٹے بھائی کے حق میں دستبردار ہو گئے تاکہ اس سلسلے کی راہنمائی اور قیادت مخدوم جندوڈا اویسیؒ کریں۔ حضرت مخدوم موصوف نے اپنے والد محترم قدوة المساکین عمدة الکاملین خواجہ خواجگان پیر علی مردان اویسی رحمۃ اللہ کی طرح اپنے زمانے میں ایک خاص مقام پیدا کیا۔ درس و تدریس کے سلسلے کو ملتان سے دور دور تک پھیلایا حتیٰ کہ سکھر سے سیالکوٹ تک کے حفاظ اور فضلاء دربار کے مکتب سے روحانی اور تعلیمی سند لیا کرتے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مخدوم جندوڈا اویسیؒ انسانوں کے علاوہ جنات کو بھی تعلیم دیتے تھے۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے پسر اکبر مخدوم پیر قاضی احمد دین اویسیؒ سجادہ نشین اور مخدوم ہوئے۔ آپؒ نے درس وتدریس اور پیری مریدی کے لیے پورے ہندوستان کو اپنے حلقہ میں شامل کر لیا۔ آپ کے وعظ یعنی تقاریر کو پورے ہندوستان میں ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ آپ کے ہزاروں مریدین پورے ملک خاص طور پر کوئٹہ اور کراچی مریدین کا مرکز ہے۔ ملتان چھاﺅنی اور مضافات میں بھی ہزاروں مریدین ہیں آپ کے دست حق پر کئی غیر مسلم حق اور ایمان کی دولت سے منور ہوئے۔ آپ نے جس طرح دنیا میں رہنمائی کی اس طرح خانقاہ اور مسجد کی تعمیر میں بھی خاص کوشش کی آپ کے ساتھ آپ کے بھائی حضرت مولانا مخدوم غلام نبی اویسیؒ بھی معاون بنے آپ پورے ملتان کے قاضی تھے اور آپ کے پاس پیر جماعت علی شاہؒ پیر گولڑہ شریفؒ اور خواجہ امام بخش اویسیؒ اور ان کے والد و دیگر سجادہ نشین صاحبان اکثر مہمان ہوتے تھے۔[1]
عرس
ترمیمقدوۃ السالکین عمدۃ الکاملین حضرت خواجہ خواجگان پیر علی مردان اویسیؒ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال 26،25 اور 27 رجب المرجب کو دربار عالیہ پر منایا جاتا ہے۔[1]