خواجہ غلام فرید
خواجہ غلام فرید (پیدائش: 25 نومبر 1845ء — وفات: 24 جولائی 1901ء) چاچڑاں شریف (سابقہ ریاست بہاولپور)، بہاولپورریاست (موجودہ پنجاب پاکستان سے تعلق رکھنے والے مشہور صوفی شاعر تھے۔ آپ کی شناخت شاعری کی صنف"کافی" ہے۔ آپ کا تعلق سلسلہ چشتیہ نظامیہ سے تھا۔ آپ نسباً قریشی فاروقی تھے- آپ کی مادری زبان سرائیکی تھی۔ کوٹ مٹھن چاچڑاں ڈیرہ نواب ان علاقوں کی زبان سرائیکی ہے جو صدیوں سے یہاں بولی جا رہی ہے۔
خواجہ غلام فرید | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 25 نومبر 1845ء چاچڑاں |
وفات | 24 جولائی 1901ء (56 سال) چاچڑاں |
مدفن | کوٹ مٹھن |
مکتب فکر | اہل سنت حنفی |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، ادیب |
پیشہ ورانہ زبان | سرائیکی ، فارسی ، اردو |
درستی - ترمیم |
[1]
نسب
ترمیمخواجہ غلام فرید بن خواجہ خدا بخش بن خواجہ احمد علی بن قاضی محمد عاقل بن خواجہ محمد شریف بن خواجہ محمد یعقوب بن خواجہ نور محمد بن خواجہ محمد زکریا بن شیخ حسین بن شیخ پریابن شیخ حاجی بن شیخ نونندبن شیخ حاجی بن شیخ صدرالدین بن شیخ یعقوب بن شیخ فضل الله بن شیخ پریابن شیخ طاہر بن شیخ دھماچ بن شیخ پنہوں بن شیخ کور بن شیخ پریا بن شیخ حسین بن شیخ محمد بن شیخ محسن بن شیخ موسیٰ بن شیخ زید بن شیخ ناصر بن شیخ حسن بن شیخ یوسف بن شیخ عیسی بن شیخ احمد بن شیخ محمد بن عبدللہ بن منصور بن مالک بن یحییٰ بن محمد بن سلیمان بن ناصر بن عبدللہ بن حضرت عمر فاروق [2]
ولادت
ترمیمخواجہ غلام فرید کی پیدائش بروز منگل 25 ذیقعد 1261ھ مطابق 25 نومبر 1845ء کو بہاولپور کے قصبہ چاچڑاں شریف میں ہوئی۔[3] آپ کے خاندان کا نسلی سلسلہ یا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق سے جا ملتا ہے۔ آپ کے خاندان میں ایک شخص، جس کا نام شیخ کوربن، حضرت شیخ پریا تھا اس لیے کور کی وجہ سے لفظ کوریجہ بن گیا۔آپ کا تاریخی نام خورشید عالم رکھا گیا۔ آپ کے والد کا نام خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہی تھا۔ آپ چار برس کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور جب آپ کی عمر آٹھ برس ہوئی تو آپ کے والد بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
تعلیم و تربیت
ترمیمآپ نے قرآن کی تعلیم میاں صدرالدین اور میاں محمد بخش سے حاصل کی۔ آپ نے فارسی کی تعلیم میاں حافظ خواجہ جی اور میاں احمد یار خواجہ سے حاصل کی۔ خواجہ غلام فرید کے بزرگوں کے ایک مرید مٹھن خان جتوئی تھے، جن کے نام سے قصبہ کوٹ مٹھن آباد ہوا۔ جب کوٹ مٹھن پر قابض پنجاب کے سکھ حاکم مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے تو آپ کے والدخواجہ خدا بخش اپنے خاندان کے ساتھ کوٹ مٹھن سے چاچڑاں شریف، ریاست بہاول پور منتقل ہو گئے۔
بہاولپور میں سکونت
ترمیمجب آپ نواب آف بہاولپور جس کانام نواب فتح محمد جو آپ کے والد کے مرید خاص بھی تھے کے پاس رہائش پزیر تھے تو وہاں پر بھی اساتذہ کرام موجود رہتے تھے جو آپ کو تعلیم دیتے تھے۔ آپ شاہی محل میں تقریباً چار سال رہے۔
بیعت و خلافت
ترمیمجب آپ تیرہ برس کے ہوئے تو آپ نے اپنے بڑے بھائی خواجہ فخر جہاں سے بیعت کی۔ جب آپ کی عمر 27 برس تھی تو اس وقت آپ کے مرشد اور بڑے بھائیخواجہ فخر جہاںکا انتقال ہو گیا۔ پھر آپ سجادہ نشین بنے۔ آپ بڑے سخی تھے، آپ کے لنگر کا روزانہ کا خرچہ 12 من چاول اور 8 من گندم تھا۔ تقریباً" 100 سے 500 آدمی ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ کے پاس جو کچھ آتا سب شام تک غرباء و مساکین میں بانٹ دیتے تھے۔ آپ کی جاگیر سے سالانہ آمدنی 35 ہزار روپے تھی، آپ انتہائی سادہ تھے۔ آپ دن میں گندم کی ایک روٹی کھاتے اور رات کو گائے کا دودھ پیتے تھے۔ آپ 18 برس روہی (چولستان) میں رہے۔ آپ نے اپنے مرید خاص نواب آف بہاولپور جس کا نام نواب صادق محمد رابع عباسی تھا کو نصیحت کی تھی کہ" زیر تھی، زبر نہ بن، متاں پیش امدی ہووی " یعنی نرمی اختیار کرو، سختی نہ کیا کرو، ورنہ اللہ تعالٰی تم پر بھی سختی کر سکتے ہیں۔
شاعری
ترمیمآپ نے شاعری بھی کی اور آپ کا زیادہ تر کلام سرائیکی زبان میں ہے۔ جس کا نام" دیوان فرید " ہے اس کے علاوہ اردو، عربی، فارسی، پوربی، سندھی اور ہندی میں شاعری بھی کی ہے۔ اور آپ کا اردودیوان بھی موجود ہے۔ آپ کے سرائیکی دیوان میں 271 کافیاں ہیں۔[4] آپ نے کافی کی صنف میں ایسی باکمال شاعری کی ہے کہ بلاشبہ ان کی شاعر دنیاکے عظیم ترین ادب کااثاثہ ہے۔سرائیکی شاعری کو جس اعلیٰ مقام پر آپ چھوڑ کے گئے تھے۔ آج بھی ان سے بہتر نہیں کہاجاسکا۔ لطیف احساسات،جذبات اوراس میں وجدانی کیفیات کواس طرح ملادیناکہ شیروشکر ہوجائیں،خواجہ کی شاعری کاادنیٰ کمال ہے۔
وصال
ترمیمآپ کا وصال چاچڑاں شریف پنجاب میں 24 جولائی 1901ء بروز بدھ ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر 56 برس تھی۔ آپ کا ایک بیٹا، حضرت خواجہ محمد بخش عرف نازک کریم اور ایک بیٹی تھیں۔ آپ کا مزارکوٹ مٹھن (ضلع راجن پور) میں ہے۔[5]
نظریہ تصوف
ترمیمسلسلہ چشتیہ کے عام مسلک کے مطابق آپ کا نظریہ بھی"ہمہ اوست"تھا۔ یعنی آپ توحیدِ وجودی کے قائل تھے۔ آپ کاتمام کلام اسی رنگ میں رنگاہواہے۔ انھیں ہر رنگ اورانگ میں اللہ کے حسن کے جلوے نظرآتے۔ بقول پروفیسر دل شاد کلانچوی"خواجہ صاحب عموماً حالت وجدمیں اشعارکہتے تھے۔ یعنی حال وارد ہوتاتوکچھ کہتے تھے ورنہ نہیں۔ ہروقت فکرِ سخن میں محورہناان کامعمول نہ تھا۔ لکھنے پرآتے توالہام کی کیفیت ہوتی۔ بعض اوقات تولمبی لمبی کافیاں دس پندرہ منٹوں میں کہہ ڈالتے تھے۔"[6]
موسیقیت
ترمیماکثر کتب میں،علمااورفصحاءاورعامۃ الناس سے سنا ہے کہ آپ علم موسیقی میں خاصادرک رکھتے تھے۔ آپ کو 39 راگ،راگنیوں پر عبورتھا۔ آپ نے ان تمام راگنیوں میں کافیاں کہی ہیں۔ جناب نشتر گوری لکھتے ہیں کہ اگر خواجہ صاحب کے کلام پرغورکیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہآپ نے سنگیت کی تمام رمزوں اورلَے تال کی تمام خوبیوں سے استفادہ کیاہے۔ اکثر کافیوں میں لفظوں کے تکرارسے ایسی ہم صوتی اورہم آ ہنگی پیداکی ہے کہ ہوا اور پانی کی لہریں اپنے نغمے بھول جائیں۔ شعر و شاعری کے اسی گُن کو ”تخپراس“ کہتے ہیں۔ کافی ایک مشکل فن ہے۔ جوعربی زبان میں تو ملتا ہے مگر دوسری زبانوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
کمالِ فن
ترمیمخواجہ فرید کاکلام ہررنگ ونسل،عوم وخواص،عالم وان پڑھ،خواندہ وناخواندہ اورعجم وعرب میں مشہو رہے۔ آپ الفاظ کے ساحر ہیں اورحافظ جیسا سوزِ عشق آپ کے کلام کاخاصہ ہے۔ امیر خسرو جیسا راگ رس کلام کی جان ہے،قآنی کا زورِ بیاں رکھتے ہیں،رومی سی تڑپ کوٹ کوٹ کرروحِ شاعری میں بھری ہے،سعدی جیسا مشاہدہ اوراسلوبِ وانداز اشعرسے ٹپکتاہے،صدیوں کے ظلسم کو اشعارمیں مقید کردیاہے۔ وہ شاعرِ قال نہیں شاعرِ حال تھے۔ ان کا کلام روح پر اس طرح اثر کرتاہے جیسے چشموں اورجھرنوں سے بہتاہوابھیوی راگ نہاں خانۂ دل میں اترتامحسوس ہوتاہے۔ دنیامیں "الحسن" کاحسن ہے۔ حسن وعشق لازم وملزوم ہیں۔
نمونہ کلام
ترمیممیڈی اج کل اکھ پڑکاندی ہے کُئی خبر وصال آندی ہے
انکھیاں بلکن مکھ ڈیکھن کوں
گل لاون کو پتھکن باہیں
یہ کلام پنجابی زبان میں ہے
وہ بہاول پور میں انگریزی اثر رسوخ کے مخالف تھے انھوں نے نواب آف بہاول پورسے کہا تھا۔
ع۔ اپنے ملک کوں ٓآپ وسا توں پٹ انگریزی تھانے
دلڑی لٹی تئیں یار سجن
کدیں موڑ مہاراں تے آ وطن
روہی دے کنڈڑے کالیاں
میڈیاں ڈکھن کناں دیاں والیاں
اساں راتاں ڈکہاں وچ جالیاں
روہی بنائوئی چا وطن
روہی دی عجب بہار دسے
جتھے میں نمانی دا یار ڈسے
جتہاں عاشق لکھ ہزار ڈسے
اتہاں میں مسافر بے وطن
دلڑی لٹی تئیں یار سجن
کدیں موڑ مہاراں تے آ سجن
حوالہ جات
ترمیم- ↑ حوالہ جات، مقابیس المجالس، جلد چہارم، مقبوس 22 جلد چہارم، مقبوس 45 جلد چہارم، مقبوس 113۔ دیوان خواجہ فرید رح، کافی نمبر 9، بمطابق قلمی نسخہ ہائے قدیم، ترجمہ، تحقیق، تصحیح، خواجہ طاہر محمود کوریجہ
- ↑ فیضی شجرہ بہاولپوری (ریاست بہاولپور)
- ↑ مناقبِ محبوبیہ، تصنیف۔ خواجہ غلام فرید
- ↑ دیوان فرید بالتحقیق
- ↑ ”شاعری۔ خواجہ غلام فرید“۔ ”اردو پوائنٹ“
- ↑ مقدمہ دیوانِ خواجہ غلام فرید