پیر محمد خاں شروانی (وفات: 1562ء) مغلیہ سلطنت کے ابتدائی عہد میں مغل فوج کا کماندار (کمانڈر) اور مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے خاص امرا میں سے تھا۔

پیر محمد خاں شروانی
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 1562ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

ملاپیر محمد خاں کے ابتدائی حالات کے متعلق معلومات فراہم نہیں ہوسکیں۔البتہ اُس کے مغل فوج میں شمولیت کے بعد ہی اُس کی شخصیت کتب ہائے تاریخ میں نظر آنے لگتی ہے۔

مغل فوج میں خدمات اور کارہائے حکومت میں دخل ترمیم

پیر محمد پنج ہزاری اکبر امرا میں سے تھا۔ملا پیر محمد شروع میں بیرم خان کا ملازم تھا۔مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے تخت نشین ہونے کے بعد بیرم خان کی وساطت سے وہ امارت و سرداری کے مرتبے پر پہنچا اور بیرم خان کی طرف سے وکالت پر مقرر ہوا۔ ہیمو پر مغل فوج کی لشکرکشی کے دوران اُس نے میدانِ جنگ میں ایسی بہادری دکھائی کہ اُسے ’’ناصر الملک‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔1559ء میں وہ مغلیہ سلطنت کے وکیل مطلق کی حیثیت سے سرفراز ہوا اور ’’خان‘‘ اور ’’سلطان‘‘ جیسے القابات سے نوازا گیا۔ رفتہ رفتہ پیر محمد کو ایسا استقلال نصیب ہوا کہ وہ تمام مالی اور ملکی مہمات کو خود انجام دینے لگا، گویا کہ وہ وکیل السلطنت ہو۔ پیر محمد کے اقتدار و شوکت کا یہ عالم ہوا کہ اراکین سلطنت اور مغل امرا اُس کے گھر جاتے اور اکثر باریابی کا موقع نہ پا کر لوٹ آتے۔ پیر محمد اپنے کردار کی راستی اور درستی کی بنا پر کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا بلکہ اُس کی سختی و تشدد کی وجہ سے بہت سے مغل امرا اُس سے خوف زدہ رہتے تھے۔چونکہ وہ کسی کے مرتبے کی طرف اعتناء بھی نہیں کرتا تھا، لہٰذا حاسدین اور سازشیوں نے عاجز ہوکر بیرم خان کے مزاج کو نامناسب باتیں لگا کر پیرمحمد سے متنفر کر دیا۔[1]

پیر محمد کی علالت اور بیرم خان کی ناراضی ترمیم

اتفاقاً چوتھے جلوسِ اکبری (1561ء) میں پیر محمد چند روز کے لیے بیمار پڑا۔ بیرم خان عیادت کے لیے گیا تو دروازہ پر ترکی غلام نے جو دربان تھا، نادانستگی میں کہا کہ آپ ٹھہریں، میں اندر خبر کردوں۔ بیرم خان کو غصہ آگیا۔ جب پیر محمد کو معلوم ہوا تو وہ گھر سے باہر نکل آیا اور نہایت عاجزی و شرمندگی سے معذرت چاہی اور کہا : اِس غلام نے نوابِ مذکور کو پہچانا نہیں۔بیرم خان نے جواب دیا: ’’تو نے ہمیں کیا پہچانا ، جو وہ پہچانے‘‘۔ باوجود اہتمام کے بیرم خان گھر کے اندر گیا تو مگر ساتھی جو بیرم خان کے ہمراہ آئے تھے، وہ گھر میں نہ گئے۔ بیرم خان مذکورہ واقعہ کے بعد بہت دِنوں تک پیر محمد سے کبیدہ خاطر رہا۔[1]

کتابیات ترمیم

  1. ^ ا ب مآثر الامراء، جلد 3، صفحہ 119۔