صمصام الدولہ شاہنواز خان
صمصام الدولہ شاہنواز خان (پیدائش: 28 فروری 1700ء– وفات: 11 مئی 1758ء) سلطنت مغلیہ کے دورِ زوال میں مغل مؤرخ، مدبر اور دکن میں نظام کے وزیر تھے۔ اُن کی تصنیف مآثر الامراء عہدِ اکبری سے لے کر عہدِ عالمگیری تک کے امرا کی سوانح اور واقعات پر مشتمل ہے۔
صمصام الدولہ شاہنواز خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 28 فروری 1700ء لاہور |
وفات | 11 مئی 1758ء (58 سال) اورنگ آباد |
مدفن | اورنگ آباد |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف ، مورخ |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی |
کارہائے نمایاں | مآثر الامراء |
عسکری خدمات | |
وفاداری | ریاست حیدرآباد |
درستی - ترمیم |
نام و خطاب
ترمیمشاہنواز خان کا اصل نام عبد الرزاق حسین تھا اور وہ شاہنواز خان کے نام سے مشہور ہوئے۔ مؤرخین نے نام صمصام الدولہ شاہنواز خان شہید خوافی اورنگ آبادی لکھا ہے۔ صمصام الدولہ کا خطاب نظام دکن نواب ناصر جنگ نے دیا جس کے بعد شاہنواز خان صمصام الدولہ کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ شاہنواز خان کے نام کے ساتھ شہید کا اضافہ اُن کی شہادت کی طرف منسوب ہے جو بعد کے مؤرخین نے لکھا ہے۔ اورنگ آباد میں اقامت کے سبب وہ اورنگ آبادی کہلائے۔
ولادت
ترمیمشاہنواز خان کی پیدائش بروز اتوار 9 رمضان المبارک 1111ھ مطابق 28 فروری 1700ء کو لاہور میں ہوئی[1]۔ دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے مقالہ نگار نے تاریخ پیدائش 28 رمضان المبارک 1111ھ مطابق ہفتہ 20 مارچ 1700ء لکھی ہے جو درست نہیں۔[2] شاہنواز خان غالباً سات برس کے تھے جب مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے وفات پائی۔
خاندان
ترمیمشاہنواز خان کے خاندان میں سوائے اُن کے پردادا امیر کمال الدین حسین اور اُن کے فرزند میر عبد الحئی خان کے کسی کے متعلق معلومات میسر نہیں۔ شاہنواز خان کے آبا و اجداد کا تعلق خراسان کے علاقہ خواف سے تھا جس کے باعث وہ خوافی کہلاتے تھے۔ شاہنواز خان کا تعلق خراسان کے ایک سادات گھرانے سے تھا۔ شاہنواز خان کے پردادا امیر کمال الدین حسین مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد میں ہندوستان آئے اور شاہی ملازمت اختیار کی۔
ابتدائی حالات اور شاہی دربار سے وابستگی
ترمیمشاہنواز خان کی عمر کے ابتدائی سال لاہور میں گذرے۔ حالتِ شباب میں ہی اورنگ آباد جا پہنچے اور نواب نظام الملک آصف جاہ اول کی ملازمت میں آ گئے۔ جلد ہی نواب نے انھیں صوبہ برار کا دیوان مقرر کر دیا۔ شاہنواز خان کے نواب نظام الملک آصف جاہ اول کے فرزند نواب ناصر جنگ سے مخلصانہ تعلقات تھے۔ 1154ھ/ 1741ء میں نواب ناصر جنگ نے جب اپنے والد نواب نظام الملک آصف جاہ اول کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو شاہنواز خان شریکِ حال تھا۔ نواب نظام الملک آصف جاہ اول نے بروز اتوار 23 جولائی 1741ء کو ناصر جنگ کو عیدگاہ میدان، اورنگ آباد میں شکست دی تو شاہنواز خان بھی گرفتار کرلیے گئے اور انھیں صوبہ برار کی دیوانی سے معزول کر دیا۔ اِس واقعہ کے بعد شاہنواز خان شاہی معتوب کی حیثیت سے عمر بسر کرتے رہے۔ یہ زمانہ تقریباً 9 سال تک محیط ہے۔ اِسی عرصہ میں شاہنواز خان نے اپنی مشہور تصنیف مآثر الامراء کی ابتدا کی اور 5 سال کی مدت میں مسلسل محنت کے بعد اِس کتاب کا بہت سا حصہ مدون کر لیا۔
1160ھ/ 1747ء میں نواب نظام الملک آصف جاہ اول نے شاہنواز خان کا قصور معاف کر دیا تو انھیں دوبارہ اُن کے سابقہ عہدہ دیوانی صوبہ برار پر بحال کر دیا۔یکم جون 1748ء کو نواب نظام الملک آصف جاہ اول کی وفات ہوئی تو نواب ناصر جنگ تخت نشیں ہوئے۔ نواب ناصر جنگ نے شاہنواز خان کو وزیر مقرر کر دیا۔ 16 دسمبر 1750ء کو نواب ناصر جنگ کی وفات ہوئی اور نواب محی الدین مظفر جنگ ہدایت کے عہد میں شاہنواز خان گوشہ نشینی میں رہے۔ نواب نظام صلابت جنگ 13 فروری 1751ء کو تخت نشیں ہوئے تو انھوں نے شاہنواز خان کو صمصام الدولہ کا خطاب دے کر اپنا وکیل مقرر کر دیا۔ فروری 1751ء سے مئی 1758ء تک اِسی عہدہ پر فائز رہے۔
آخری ایام
ترمیمفرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی اٹھارہویں صدی عیسوی کے وسط تک جنوبی ہندوستان میں اپنے قدم گاڑنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی تھیں اور نظام حیدرآباد دکن سے مختلف اقسام کی شورشوں میں مصروف رہے۔ شاہنواز خان فرانسیسیوں کی مخالفت کیا کرتے تھے، وہی فرانسیسی 1170ھ/ 1756ء میں اُن کو زِیر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بروز جمعرات 3 رمضان المبارک 1171ھ مطابق 11 مئی 1758ء کو فرانسیسیوں سے ایک جھڑپ میں شاہنواز قتل کردیے گئے۔ ایک غیر معتبر روایت کے مطابق انھیں فرانسیسی گورنر جنرل مارکوئیس دی بسے کاستیلناؤ نے اپنے ہاتھ سے گولی مار کر قتل کر دیا تھا، مگر یہ روایت غیر مصدقہ ہے، البتہ پہلی روایت جو محققین اور مؤرخین کے نزدیک قابل قبول ہے، وہ یہی ہے کہ وہ فرانسیسیوں سے ایک جھڑپ کے دوران قتل ہوئے۔[2] شاہنواز خان کی تدفین موجودہ اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں ہوئی مگر اب کوئی نہیں جانتا کہ یہ مؤرخ کس مقام پر آسودہ خاک ہے؟۔
بحیثیتِ مؤرخ
ترمیم- تفصیلی مضمون پڑھیں: مآثر الامراء
بحیثیتِ مؤرخ شاہنواز خان نے سلطنت مغلیہ کے امرا کے متعلق حقائق و سوانح تحریر میں لاتے ہوئے اپنی تصنیف مآثر الامراء قلمبند کی۔ اِس کتاب میں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد سے لے کر اورنگزیب عالمگیر کے عہد تک کے مغل امرا اور دکن کے امرا کی سوانح اور واقعات موجود تھے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول تک شاہنواز خان اپنی ذات میں وہ منفرد مؤرخ تھے جنھوں نے مغل امرا اور مدبرین کے حالاتِ زندگی سے متعلق کتاب تصنیف کی۔ اِن تمام مغل امرا اور مدبرین کا تذکرہ حروفِ تہجی کے اعتبار سے تحریر کیا گیا ہے۔
بہارستان سخن
ترمیممآثر الامراء کے علاوہ شاہنواز خان نے ایک اور کتاب بنام بہارستان سخن بھی تصنیف کی تھی جس میں فارسی زبان کے ابتدائی شعرا سے لے کر مصنف کے زمانہ تک کے تمام مشاہیر و شعرا کے تذکرہ ہائے جمع کیے گئے تھے۔ یہ کتاب 9 طبقات میں منقسم ہے۔ اِس کے دو نسخے کتب خانہ آصفیہ، حیدرآباد دکن میں موجود ہیں۔[1]
حوالہ جات
ترمیم