پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان (انگریزی: People's Democratic Party of Afghanistan)افغانستان کی ایک سیاسی جماعت تھی۔ جو یکم جنوری 1965 کو قائم ہوئی[2]۔یہ پارٹی افغانستان سوشلسٹ پارٹی کے مختلف گرہوں کے اتحاد کے نتیجے میں وجود آئی[3]۔اس وقت سیکولر اور بادشاہت مخالف پارٹیوں پر پابندی عائد تھی [4]چنانچہ اس پارٹی کا آغاز پیپلز ڈیموکریٹک رحجان کے طور پر کیا گیا ۔ 27 افرا د ترہ کئی کے گھر میں اکھٹے ہوئے جس کے بعد پارٹی کی پہلی تاسیسی کانگریس میں نور محمد ترہ کئی کو سیکر یڑی جنرل جبکہ ببرک کارمل کو ڈپٹی سکریٹری جنرل منتخب کیا گیا ۔ اس اجلاس میں پانچ افراد پر مشتمل مرکزی کمیٹی بنائی گئی[5]۔ پارٹی کی ایک اقلیتی حصہ نے 1973 ء میں محمد داؤد خان کی جانب سے محمد ظاہر شاہ کے اقتدار کا تختہ الٹنے اور جمہوریہ افغانستان کے قیام میں مدد کی۔آگے چل کر داؤد خان پارٹی کا سخت مخالف بن گیا اور اس پارٹی حمایتی سیاست دانوں کو کابینہ سے نکالنے کا عمل شروع کیا۔جس کی وجہ سے سوویت یونین کے ساتھ ملک کے حالات کشیدہ ہو گئے۔
حزب دموکراتيک خلق افغانستان د افغانستان د خلق دموکراټیک ګوند | |
---|---|
مخفف | پی ڈی پی اے |
تاسیس | 1 جنوری 1965 |
تحلیل | 16 اپریل 1992 |
جانشین | وطن پارٹی |
صدر دفتر | کابل، افغانستان |
اخبار | خلق (1966) پرچم (1969) |
یوتھ ونگ | تنظیم جمہوری جوانان افغانستان |
رکنیت | 160,000 (دہائی 1980)[1] |
نظریات | اشتمالیت مارکسیت افٖغان قومیت سامراج مخالف |
سیاسی حیثیت | انتہائی بائیں بازو |
جماعت کا پرچم | |
1979ء میں پارٹی نے افغانستان قومی فوج کی مدد سے داؤد کو معزول کرتے ہوئے اپنی حکومت قائم کی ۔ تاریخ میں اس واقعہ کو ثور انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ انقلاب کے بعد پہلے تین دن تک فوج کے کرنل عبدلقادر افغانستان کے حکمران رہے جبکہ ان کی جگہ نور محمد ترہ کئی نے لے لی۔ ثور انقلاب کے بعد جمہوری جمہوریہ افغانستان کی بنیاد رکھی گئی جو 1987ء تک قائم رہا۔1987ء میں قومی مصالحتی عمل کے بعد افغانستان کا نام تبدیل کرکے ثورانقلاب سے پہلے والا نام جمہوریہ افغانستان رکھا گیا۔ 1990 ء میں نجیب اللہ کی قیادت میں پارٹی کا نام تبدیل کر کے حزب وطن پارٹی رکھا گیا جس کا وجود 1992ء تک مجاہدین کے کنٹرول حاصل کرنے تک رہا۔ اسی اثناء میں پارٹی تحلیل کی گئی اور اس کے کچھ رہنماؤں نے نئی حکومت میں شمولیت اختیار کر لی اور کچھ نے مسلح گروہوں میں پناہ لی[6]۔ نجیب اللہ کے حمایتیوں نے حزب وطن پارٹی کو 2004ء اور 2017ء میں دوبارہ استوار کرنے کی کوشش کی[7]۔
اپنے وجود کے زیادہ تر وقت کے دوران یہ پارٹی دد دھڑوں خلق اور پرچم میں منقسم رہی۔
مزید دیکھیے
ترمیم- The PDPA and the Soviet invasionآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ psupress.org (Error: unknown archive URL)
- The future and legacy of PDPA members
- The Constitution of the People's Democratic Party
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Internal Refugees: Flight to the Cities"۔ کتب خانہ کانگریس۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2017
- ↑ "Babrak Karmal Biography"۔ Afghanland.com۔ 2000۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2013
- ↑ Lal Khan۔ "Is misery Afghanistan's destiny?: The story of Afghanistan's Saur Revolution"۔ www.marxist.com۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2018
- ↑ Thomas Ruttig۔ "Islamists, Leftists – and a Void in the Center. Afghanistan's Political Parties and where they come from (1902-2006)" (PDF)۔ Konrad Adenauer Siftung۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2009
- ↑ J. Bruce Amstutz (1 July 1994)۔ Afghanistan: The First Five Years of Soviet Occupation۔ DIANE Publishing۔ صفحہ: 65۔ ISBN 9780788111112۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2014
- ↑ "Afghanistan: Blood-Stained Hands: II. Historical Background"۔ www.hrw.org۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2018
- ↑ "The Ghost of Najibullah: Hezb-e Watan announces (another) relaunch - Afghanistan Analysts Network"۔ www.afghanistan-analysts.org۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2018